بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لیے مسجد میں مٹھائی وغیرہ دے کر دعا کرانا اور ایسی مٹھائی کے کھانے کا حکم


سوال

ہماری طرف جب کسی کے یہاں کوئی انتقال ہوجاتا ہے، تو ان کے گھر والے ان کے نام سے کھجور، مٹھائی وغیرہ مسجد میں دیتے ہیں،  اور کہتے ہیں کہ میت کے واسطے دعا کردیں،  تو معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ میت کے نام سے آئی ہوئی  مٹھائی، کھجور اور بھی باقی چیزیں،  مسجد کے امام اور مقتدیوں کا کھانا کیسا ہے؟

جواب

اگر یہ اشیاء ایصالِ ثواب کی قرآن خوانی کے عوض نہ ہوں تو جائز ہے، تاہم اگر وہاں اس چیز کا رواج ہے اور لوگ اسے میت کی بخشش کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں، یا اس کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جاتا ہے، جیسے تیجے چالیسویں وغیرہ کی رسومات میں ہوتا ہے، تو پھر یہ طریقہ درست نہیں ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ نہ کھایا جائے۔

نیز  ایصال ثواب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کوئی دن اور وقت متعین کیے بغیر مرحوم کے متعلقین اپنے اپنے طور پر تلاوت کرکے، تسبیحات پڑھ کر، صدقہ خیرات کرکے میت کے لیے ایصالِ ثواب اور دعا کردیا کریں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لايكفر، وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفياً للشبهة."

(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ٦/ ٧٥٤، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ٥/ ٣٤٢، ط: رشیدیة)

وفيه أيضاً:

"ولو دعي إلى دعوة فالواجب أن يجيبه إلى ذلك، وإنما يجب عليه أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية، ولا بدعة، وإن لم يجبه كان عاصيا والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقينا بأنه ليس فيها بدعة، ولا معصية كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ٥/ ٣٤٣، ط: رشیدیة)

شرح مسلم للنووی میں ہے:

"وأما الأعذار التي يسقط بها وجوب إجابة الدعوة أو ندبها فمنها أن يكون في الطعام شبهة أو يخص بها الأغنياء أو يكون هناك من يتأذى بحضوره معه أو لا تليق به مجالسته أو يدعوه لخوف شره أو لطمع في جاهه أو ليعاونه على باطل وأن لا يكون هناك منكر من خمر أو لهو أو فرش حرير أو صور حيوان غير مفروشة أو آنية ذهب أو فضة فكل هذه أعذار في ترك الإجابة ومن الأعذار أن يعتذر إلى الداعي فيتركه ولو دعاه ذمي لم تجب إجابته على الأصح."

(كتاب النكاح، باب الأمر بإجابة الداعي إلى دعوة، ٩/ ٢٣٤، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ٢/ ٢٤٠، ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"اموات کو ثواب پہنچانا مستحسن ہے، عباداتِ مالیہ وعباداتِ بدنیہ کا ثواب پہنچتا ہے، لیکن ایصالِ ثواب کے لیے شریعتِ مقدسہ نے جو صورتیں مقرر نہیں کیں ان کو مقرر کرنا اور ایصالِ ثواب کی شرط سمجھنا یا مفید جاننا بدعت ہے، شرعی صورت اس قدر ہے کہ ۔۔۔ یہ تو ایصالِ ثواب کا شرعی طریقہ ہے،  اب اس کے لیے کوئی خاص تاریخ یا دن معین کرنا اور تعیین کو وصولِ ثواب کی  شرط یا زیادتِ ثواب کے لیے بغیر شرعی دلیل کے مفید سمجھنا یا خاص چیزیں مقرر کرنا یا خاص مقام مثلاً خاص قبر پر صدقہ کرنے کی تعیین یا مردے کے جنازے  کے ساتھ لے جانے کو ضروری یا مفید سمجھنا، اور بھی اکثرامور جو رسم ورواج کے طور پر قائم ہوگئے ہیں یہ سب خلافِ شریعت اور بدعت ہیں۔"

(کتاب الجنائز، ایصالِ ثواب مستحسن ہے لیکن اس کی مروجہ صورتیں اکثر بدعت ہیں،٤/١٢٦، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں