بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو القعدة 1446ھ 23 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ميت کمیٹی كا حكم


سوال

1۔ہمارے گاؤں میں جب کوئی مر جاتا ہے تو گاؤں کے لوگ کمیٹی بنا تے ہیں اور گوشت وغیرہ خرید تے اور دیگر بہت زیادہ خرچہ کرتے ہیں جیسے کسی کی شادی ہو،کیا ایساکرنا درست ہے؟

2۔نیز جو کھانا میت کے گھر والوں کے یے تیار کیاجاتاہےتو اس کھانے میں قریب اور دور کے سب لوگ شرکت کرتے ہیں، اس کے متعلق بھی رہنمائی فرمائیں کہ یہ کھانا کس کے لیے کھانا جائز ہے اور کس کے لیے جائز نہیں ۔

3۔یہ جو کمیٹی بنائی جاتی ہےاور اس میں روپیہ پیسہ جمع کیا جاتا ہے اور گر کسی کے پاس نہ ہوتو وہ اس کےلیےقرض بھی لیتاہے ،یہ کس حد تک جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل مختلف مقامات پرمیت کمیٹی کاجو رواج چل پڑا ہے،جس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر خدانخواستہ  موت کا  سانحہ پیش آ جاتاہے تواس کی تجہیز وتکفین کاخرچہ برداشت کیاجائے یا تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک  خاندان یا برادری یا محلے کے لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر ماہ یا ہر سال ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔تو اس میں بظاہر نیک اور ہم دردانہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتیں ہیں ۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

الف:… کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ 

ب:…کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

ج:… بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

د:… اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔

لہذا مذکورہ قباحتوں کی وجہ سے  اولاً تو کمیٹی سسٹم درست نہیں ہے، پھرفوتگی اورغم کےاس موقع پر،  دعوت اورپرتکلف کھانوں کا اہتمام جہاں میت کے اہلِ خانہ کے غم میں اضافہ کا سبب بنتاہے وہاں بدعت کے ارتکاب کی وجہ بھی سےشرعاً ممنوع ہے۔

2۔ میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے، البتہ میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔

3۔شرعی تعلیمات  کے مطابق قرض سے پناہ مانگنے کی ترغیب دی گئی ہےاو ربنا ضرورت قرض لینے کو ناپسند یدہ قرار دیا گیا ہے؛لہذا صورتِ مسئولہ میں میت کمیٹی کی شرعی حیثیت کو جان لینے کے بعداس كے ليے  قرض لینے سے اجتناب کیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت."

"وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذطعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:240، ط سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144611100826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں