بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے حقوقِ مقدمہ خوشی سے از خود ادا کرنا


سوال

آپ کے دارالافتاء سے میراث سے متعلق ایک فتویٰ لیا گیا تھا، اس میں لکھا تھا کہ "مرحوم کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ ترکے میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد ۔۔۔الخ" ،اب سوال یہ تھا کہ کیا ترکے سے میت کے حقوقِ متقدمہ کفن دفن کا خرچہ نکالنا ضروری ہے؟ اگر تدفین کے وقت کسی رشتہ دار مثلاً بیٹے وغیرہ نے اپنی خوشی سے اپنے پیسوں سے اپنے والد صاحب کا کفن دفن کردیا، تو کیا ترکے میں سے وہ خرچہ نکال کر اسے دینا ضروری ہے؟ جب کہ وہ یہ خرچہ مانگ بھی نہ رہا ہو اور اپنی خوشی سے معاف کردے، بلکہ بچے تو اسے اپنا فرض سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کفن دفن کا خرچہ میت کے مال سے ادا کیا جاتا ہے ،تاہم اگر ميت کا نفقہ کسی کے ذمہ لازم ہےجیسے بیوی کا نفقہ شوہر پر یا نابالغ اولاد کا باپ پر  تو پھر اس صورت میں تجہیز اور تکفین کا خرچہ اسی کو دیناہوگا ،البتہ اگر کوئی خوشی سے اپنے ہی مال سے مرحوم کے کفن دفن  کا خرچہ ،قرض وغیرہ ادا کر دیتا ہے تو یہ اس کی طرف سے تبرع ،احسان اور موجب ثواب ہے ،پس اس صورت میں میت کے ترکہ سے مذکورہ خرچہ اس شخص کو ادا نہیں کیا جائے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(واختلف في الزوج والفتوى ‌على ‌وجوب ‌كفنها عليه)."

(کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ الجنازۃ، ج:2،ص:206،ط:سعید)

وایضاً:

"وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)(قوله بتجهيزه) وكذا تجهيز من تلزمه نفقته، كولد مات قبله ولو بلحظة وكزوجته، ولو غنية على المعتمد در منتقى."

(کتاب الفرائض ،ج:6،ص:759،ط:سعید)

وايضاّ:

"ولا يخرج الكفن عن ملك المتبرع."

(كتاب الفرائض،ج:6،ص:205،سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101977

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں