بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لیے دعائے مغفرت کی حدیث اور حکم


سوال

میت کیلئے مغفرت کی دعا کا کیا حکم ہے؟ کیا تین دن دعا مانگنا یا مسجد میں جماعت کے بعد دعا مانگنا جائز ہے؟ اور اس کے متعلق کوئی حدیث بھی ذکر کر دیں۔

جواب

واضح ہو کہ  ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے ، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے؛ بلکہ بلاتعیین جو نفلی عبادت بدنی و مالی بسہولت ادا  ہوسکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ تاہم میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا بہت اچھا عمل ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے۔  چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے چچا ابو عامر کو اوطاس کی جانب بھیجے جانے والا لشکر کا امیر بنایا، جنگ میں وہ زخمی ہوئے، انہوں نے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ : نبی کریم ﷺ کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں چچا کا واقعہ بتایا، نبی کریم ﷺ نے پانی منگوایا، وضو فرمایا اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ !عبید ابو عامر کی مغفرت فرمادیجیے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اتنے بلند فرمائے کہ مجھے آپ ﷺ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دی، اس کے بعد آپ ﷺ نے مزید یہ دعا مانگی : اے اللہ ابو عامر کو قیامت والے دن اپنے بہت سے بندوں پر فوقیت اور فضیلت عطا فرما۔

صورت  مسئولہ ميں ميت كے ليے دعائے مغفرت خود بھی کر سکتے ہیں، مسجد کے امام صاحب کو درخواست بھی کر سکتے ہیں کہ نماز کے بعد دعا کروادیں تاکہ جماعت میں شامل نیک لوگوں کی دعائیں بھی شامل ہوجائیں۔ تاہم کسی ایک طریقے کو سنت یا لازم سمجھنا درست نہیں۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن أبي موسى، رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس .. قال: يا ابن أخي أقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام و قل له: استغفر لي واستخلفني أبو عامر على الناس فمكث يسيراً، ثم مات فرجعت فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل، وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال: قل له: استغفر لي، فدعا بماء فتوضأ ثم رفع يديه، فقال: اللهم اغفر لعبيد أبي عامر، ورأيت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس".

 (صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة أوطاس 5 /197 ط: دار الشعب)

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة". 

( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر،3/ 59، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں