بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

"میں طلاق، میں طلاق، میں طلاق" کہنے کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو بمورخہ 28 جنوری2021 کو غصے اور جذبات میں آکر ایک سانس میں تین بار "میں طلاق" کہا،  جب کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی،  اکیلے میں۔ میرے دو بچے ہیں  اور ایک بچہ 15جنوری کو پیدا ہوا۔ میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور دوبارہ تجدید نکاح کرنا چاھتا ہوں!

جواب

آپ نے سوال میں  جو الفاظ ذکر کیے ہیں  یعنی   "میں طلاق"  اگر آپ نے اپنی بیوی کو  صرف یہی الفاظ کہے تھے، اور  جملہ مکمل نہیں کیا تھا تو ان الفاظ سے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن  اگر آپ نے کوئی اور الفاظ کہے تھے یا اس جملہ کو مکمل کیا تھا تو اپنے ادا کیے ہوئے الفاظ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال دوبارہ بھیج دیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص.

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية، فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكمًا؛ ليدخل الكتابة المستبينة، وإشارة الأخرس، والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق هكذا، كما سيأتي".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206201019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں