بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 شعبان 1446ھ 11 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

ڈپریشن کے مریض کی طلاق کا حکم


سوال

میں ایک ذہنی مریض ہوں،دوائیاں لیتا ہوں،اپنے آپ کو کاٹ پیٹ لیتا ہوں،مجھے تقریبا چودہ ،پندرہ یا اس  زیادہ الیکٹرک شاکس بھی لگ چکے ہیں،ہسپتال میں بھی ایڈمٹ رہا ہوں،میں جب ڈپریشن میں ہوتا ہوں اپنے قابو  سے باہر ہوجاتا ہوں مکمل طور پر،اس وقت بھی میں سخت غصے  اور بہت زياده  ڈپریشن میں تھالیکن ایسا نہیں تھا کہ میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا ،میں نے غلطی میں اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے  دیں کہ’’ میں نے تمھیں پہلی طلاق دی ، پھر تھوڑا وقفے کے بعد کہا؛میں نے تمھیں دوسری طلاق دی‘‘ميرے ليے شرعا كيا حکم ہے کہ یہ طلاقیں منسوخ ہو کر معاملہ ختم ہوجائے؟راه نمائی فرمائیں۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً سائل میڈیکل رپورٹ کے مطابق ڈپریشن کی بیماری میں مبتلا ہے،  جس کی وجہ سے سائل اپنے قابو سے باہر ہوجاتا ہےاوراسی ڈپریشن کی حالت میں غیر ارادی طور پر اس کی زبان سےطلاق کے الفاظ دو دفعہ ادا ہوئے تو اس سے سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی ،البتہ اگر طلاق دیتے وقت سائل اپنے ہوش و حواس  میں تھا اور اس وقت ڈپریشن کی حالت میں نہیں تھا اور بیوی کو دو طلاقیں دی کہ ’’میں نے تمھیں پہلی طلاق دی ،پھر تھوڑا وقفے کے بعد کہا  میں نےتمھیں دوسری طلاق دی ‘‘  تو ان الفاظ سے سائل  کی بیوی پر  دو طلاق رجعی واقع ہوگئیں، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران سائل اگر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کر سکتاہے، اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ سائل  زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا" تو رجوع ہوجائے گا، اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلیں یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر رجوع کے بغیر عدت گزر گئی تو نکاح ٹوٹ جائے گاپھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، لیکن واضح رہے کہ رجوع یا نکاح جدید کرنے کے بعد  سائل کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا ۔ اس کے بعد اگرسائل نے  ایک طلاق بھی دی تو مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہوکر بیوی سائل پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی ،پھر نہ تو رجوع کا اختیار ہوگا اور نہ دوبارہ نکاح کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و سئل نظمًا فيمن طلق زوجته ثلاثًا في مجلس القاضي و هو مغتاظ مدهوش فأجاب نظمًا أيضًا بأن الدهش من أقسام الجنون فلايقع و إذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرةً يصدق بلا برهان اهـ  قلت: و للحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنّه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده و هذا لا إشكال فيه، الثاني أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول و لايريده فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلّة تدلّ على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية ... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته و كذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لاتعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها؛ لأنّ هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لاتعتبر من الصبي العاقل."

(کتاب الطلاق،مطلب في تعريف السكران وحكمه، ج:3،ص:244، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"روى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - فيمن قال لامرأته: كوني طالقًا أو اطلقي، قال: أراه واقعًا و لو قال لها: أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال: قد طلقتك قد طلقتك أو قال: أنت طالق و قد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولًا بها، و لو قال: عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء و يصدق فيما بينه وبين الله تعالى."

(کتاب الطلاق ، ج: 1، ص: 355، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما حكم الطلاق البائن .... فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الكتب العلمية)

بیان القرآن میں ہے:

"حکم بست و ہفتم حلالہ  در طلاق ثالث : فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ إلى قوله تعالىوَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ۔ پھر اگر (دو طلاقوں کے بعد ) کوئی ( تیسری طلاق ( بھی ) دیدے عورت کو تو پھر وہ ( عورت ) اس تیسری طلاق دینے والے ) کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد ..."

(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر: 230،ج:1، ص:163،ط:رحمانیہ)

 ملاحظہ ہو امداد الفتاوی:(حکم طلاق غضبان و مدہوش،ج:2، ص:412، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں