بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میکس کرپٹو ٹریڈنگ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا


سوال

Max crypto trading "میکس کریپٹو ٹریڈنگ" نام سے ایک کمپنی ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ اس میں جتنا انویسٹ کریں گے اس کا دو فیصد نفع روزانہ ملے گا(ہفتہ میں پانچ دن، دو دن ٹریڈنگ نہیں ہوتی) اگر سو ڈالر انویسٹ کیا گیا تو دو ڈالر روزانہ ، 25000 ڈالر انویسٹ کرنے پر 500 ڈالر روزانہ، اور اس میں Binary system بائنری سسٹم بھی ہے جو داہنے اور بائیں طرف لوگوں کو جوڑنا ہے دونوں طرف جوڑنے پر پانچ فیصد ملتا ہے اور یہ سلسلہ نیچے تک چلتا ہے، کمپنی کا یہ کہنا ہے کہ یہ کریپٹو کرنسی میں ٹریڈنگ کرتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ ایسی کمپنی میں انویسٹ کرنے کا کیا حکم ہے؟

بہت بڑی تعداد میں مسلمان اس میں شامل ہورہے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہے؟ جو شامل ہوچکے ہیں انھیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء۔

جواب

واضح  رہے کہ کرپٹو کرنسی  ایک فرضی کرنسی ہے، جس کی خرید و فروخت  شرعا جائز نہیں، جیساکہ  تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

" بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔"

( تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 92، ناشر: بیت العمار)

لہذا صورت مسئولہ میں  مذکورہ کمپنی کی تجارت کا مدار چوں کہ کرپٹو کرنسی پر ہے، (جیسا کہ  سائل نے صراحت کی ہے،نیز  مذکورہ کمپنی کے حوالے سے   انٹرنیٹ پر فراہم کردہ معلومات سے  بھی ثابت ہوتا ہے) اور کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری جیسے خود کرنا جائز نہیں،  اسی طرح  کسی ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا بھی جائز نہیں ہوگا  جس کی تجارت  کا  مدار کرپٹو کرنسی پر ہو۔

فقه المعاملات میں ہے:

"يشترط في الموكل به -لصحة الوكالة - ثلاثة شروط:

(أحدها) أن يكون إتيانه سائغًا شرعًا.

وعلى ذلك فلايصح التوكيل بالعقود المحرمة والفاسدة والتصرفات المحظورة شرعًا؛ لأنّ الموكل لايملكه، فلايصحّ أن يفوضه إلى غيره، و لأن التوكيل نوع من التعاون، و التعاون إنما يجوز على البر والتقوى لا على الإثم والعدوان."

( الوكالة، المؤكل به، ١ / ١٠٦٧)

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: .... أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ٤ / ٢٩٩٩، ط: دار الفكر)

نیز مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کے ناجائز ہونے کی دوسری وجہ  ملٹی لیول / نیٹ ورک مارکیٹنگ  ہے، جس کے تحت  مذکورہ کمپنی کا ہر ممبر /   سرمایہ کار   اپنا منافع میں اضافہ کرنے کے لیے اپنے توسط سے مزید افراد کو مذکورہ کمپنی میں شامل کروانے اور ان سے سرمایہ کاری کروانے کے پابند ہوتے ہیں، پھر  ہر ممبر مزید افراد کو شامل کرنے کا پابند ہوتا ہے، پس ہر ممبر سازی پر پہلے ممبر کو اس ممبر سازی کا نفع دیا جاتا ہے، باوجود  یہ کہ نچلی سطح پر ہونے والی ممبر سازی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتاسوائے اس بات کے نچلی سطح تک ہونے والی ممبر سازی کی چین کے آغاز میں وہ ہوتا ہے، پس ملٹی لیول  مارکیٹنگ طریقہ کار میں بنیادی طور پر دو خرابیاں  پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ : نفع میں اضافہ کے لیے سرمایہ کار کو  اپنے توسط سے مزید ممبر بنانے کا پابند کرنا، جو ایک عقد کے ساتھ دوسرے عقد کو مشروط کرنے کی وجہ سے ناجائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اس طرح کے معاملات کرنے سے منع فرمایا ہے۔

مسند الإمام احمد بن حنبل میں ہے:

" ٣٧٨٣ - حدثنا حسن، وأبو النضر، وأسود بن عامر، قالوا: حدثنا شريك، عن سماك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة. "

( مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ٦ / ٣٢٤، ط: مؤسسة الرسالة )

دوسری خرابی یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے کمیشن کے جائز ہونے کا مدار عمل پر رکھا ہے، جبکہ ملٹی لیول مارکیٹنگ میں پہلے ممبر کو نچلی سطح کے تمام ممبران کا جو کمیشن موصول ہوتا ہے، وہ اس کے کسی عمل کے بغیر ہے، جو کہ شرعا ناجائز ہے، لہذا ایسی کمپنی  کا حصہ بننا شرعا ناجائز ہوگا، اور اب  تک جو نفع حاصل ہوا وہ بھی ناجائز  ہوگا، اگر کمپنی کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اهـ. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اهـ."

( كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، ٥ / ١٣٦، ط: دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" مطلب في أجرة الدلال.

 [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه."

( كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403100015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں