بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ زمین کے ناقابلِ انتفاع حصے کا استبدال جائز ہے


سوال

ایک زمین جو کہ قبرستان کے لیے وقف  ہے،اس کے مشرقی حصے میں طولاً  بارش کا پانی مستقل گزرتا ہے،جس کی وجہ سے زمین کا بقیہ حصہ بھی دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا ہے،بارش کا پانی روکنے کا ہمارے پاس کوئی انتظام اور حل نہیں ہے،جس جگہ سے پانی گزرتا ہے وہاں میت کا دفن کرنا بھی ممکن نہیں ہے،لہٰذا گاؤں والے اب یہاں مفادِ عامہ کی  خاطر موقوفہ زمین کے اس حصے میں جہاں سے پانی گزرتا ہے 12 فٹ چوڑا  پختہ روڈ گزارنا چاہتے ہیں،تاکہ پانی اسی پختہ  روڈ سے گزرے،جس سے کم از کم بقیہ موقوفہ زمین خراب نہیں ہوگی،اور خلقِ خدا کو گزرنے میں بھی آسانی ہوگی، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس موقوفہ زمین کے اس حصے میں روڈ گزارنا کیسا ہے جو کہ اکثر زیرِ آب رہتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وقف تام ہونے کے بعد موقوفہ زمین جس مقصد کے لیے وقف کی گئی ہو اسے اسی مقصد میں استعمال کرنا ضروری ہے،اگر وہ مقصد  فوت ہونے کا اندیشہ ہو تب بھی اسے کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال میں  لانا شرعا جائز نہیں ہے،البتہ موقوفہ زمین سے اگر وہ مقصد حاصل کرنا   بالکل دشوار ہوجائے تو اس صورت میں ایسی موقوفہ زمین کے بدلے میں  دوسری زمین  لی جائے اور اسے اسی مقصد کے لیے استعمال میں لایا جائے جس مقصد کے لیے سابقہ زمین وقف تھی۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں قبرستان کے لیے وقف زمین کا کچھ حصہ اگر  زیر آب رہنے کی وجہ سے   تدفین کے لیے ناقابلِ  استعمال ہے تو ایسی صورت میں بارہ فٹ زمین کو پختہ اور پکا کرلیں،لیکن اس کو راستہ نہ بنائیں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"مراعاة غرض الواقفين واجبة." 

(کتاب الوقف،فصل اجارۃ الواقف، مطلب فی المصادقۃ علی النظر،ج4،ص445،ط:سعید)

و فيه أيضًا:

"(و يزول ملكه عن المسجد والمصلى ) بالفعل و ( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني ( وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه )۔۔۔۔ لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافًا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحبسه ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد."

(كتاب الوقف،مطلب سكن دارا ثم ظهر انها وقف،ج4،ص355،ط:سعيد)

و فيه أيضًا:

"لو صارت الأرض بحال لاينتفع بها و المعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، و أن لايكون هناك ريع للوقف يعمر به و أن لايكون البيع بغبن فاحش، و شرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم و العمل لئلايحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ".

(کتاب الوقف،مطلب فی استبدال الوقف وشروطہ،ج4، ص386، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں