بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ زمین کوغصب یا تبدیل کرنے کاحکم


سوال

ہم نے نو مرلے زمین زچہ وبچہ ہسپتال کے لیے کسی سے وقف کروائی، اور اس کا انتقال بھی کروایا ،لیکن وقف شدہ زمین پر کسی مذہبی جماعت کا قبضہ ہے،کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟کیا وقف شدہ زمین کے بدلےکوئی اور زمین لی جاسکتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگرواقعۃًیہ جگہ غریب لوگوں کے علاج کی خاطرزچہ وبچہ کے ہسپتال کےلیے وقف کی گئی تھی تو اسے اسی مصرف میں استعمال کیاجاناضروری ہے، کسی بھی شخص یاجماعت کا موقوفہ زمین پرقبضہ(غصب)کرکے اس کواپنے تصرف میں لینا جائز نہیں ہے،جولوگ دوسرے کی  زمین غصب کرتے ہیں ان کےلیے  حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے :

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".

(كتاب البيوع،باب الغصب والعارية،الفصل الأول، ج:1، ص:254، ط:قديمي)

ترجمہ:: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين."

(صحيح مسلم،کتاب المساقات،باب تحریم الظلم و غصب الارضوغیرہا،ج:3،ص:1230،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)پہنائے گا۔

نیزوقف کردہ زمین کودے کراس کے بدلے میں اورزمین لینا جائز نہیں ہے ،لیکن وقف کرتے وقت اگروقف کرنے والے نے اپنے لیے یا متولی یاکسی اور کےلیےضرورت کے موقع پر جگہ  تبدیل کرنے کی صراحت کی ہو،یاموقوفہ زمین کانفع بالکل ختم ہوچکاہو،اورزمین کاعوض زمین ہو تو مذکورہ شرائط پائے جانے کی صورت میں مذکورہ زمین کو اورزمین کے بدلیے میں تبدیل کرناجائزہے،مذوکورہ شرائط میں سے اگرکوئی ایک شرط نہیں پایاگیاتو مذکورہ زمین کو کسی دوسری زمین کے بدلے میں تبدیل کرنا جائز نہ ہوگا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولو ‌غصبها من الواقف أو من واليها غاصب فعليه أن يردها إلى الواقف فإن أبى وثبت غصبه عند القاضي حبسه حتى رد".

(كتاب الوقف ،الباب التاسع في غصب الوقف،ج:2،ص:447،ط:دارالفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرط في البحر خروجه على الانتفاع بالكلية وكون البدل عقارا والمستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل، وفي النهر أن المستبدل قاضي الجنة فالنفس به مطمئنة فلا يخشى ضياعه.

(قوله: وشرط في البحر إلخ) عبارته وقد اختلف كلام قاضي خان في موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف، حيث رأى المصلحة فيه وفي موضع منع منه: لو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش، وشرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ ويجب أن يزاد آخر في زماننا: وهو أن يستبدل بعقار لا بدراهم ودنانير فإنا قد شاهدنا النظار يأكلونها، وقل أن يشتري بها بدلا ولم نر أحدا من القضاة فتش على ذلك مع كثرة الاستبدال في زماننا."

(کتاب الوقف،مطلب في ‌استبدال ‌الوقف وشروطه،ج:4،ص:286،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں