بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ رہائش گاہ کو بیوی کے نام کرنا


سوال

 میراایک فلیٹ ہے،  جس میں، میں اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں کچھ ایسا لکھ جاؤں کہ میرے جانے کے بعد میری اہلیہ اس فلیٹ کی مالک رہیں، اور بعد میں وہ اس کو اپنے دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دیں، کیا اسلام ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے؟ اور اگر نہیں تو ایسا کیا کیا جائے کہ میرے جانے کے بعد میری اہلیہ اطمینان و سکون کے ساتھ اس فلیٹ میں زندگی بسر کر سکیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل  کے پاس ایک ہی فلیٹ ہے، اور وہ تقسیم کرنے (پارٹیشن کرنے) کے قابل بھی نہیں ہے، تو  یہ فلیٹ سائل اپنی اولاد کی رضامندی سے اپنی بیوی کو دے سکتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ   پہلے اس فلیٹ میں موجود اپنا ذاتی  سامان سارا کا سارا اہلیہ کو امانت کے طور پہ دے دے، پھر  فلیٹ  اپنی اہلیہ کو ہبہ (گفٹ) کرکے اس پر مکمل قبضہ دے دے اور اہلیہ سائل کی زندگی ہی میں اس فلیٹ پر قبضہ کرلے؛ تو اس صورت میں ہبہ مکمل ہو جائے گااور سائل کی اہلیہ اس فلیٹ کی مالک ہو جائے گی،    اس کے بعد سائل اپنا سامان واپس لے لے۔ لیکن اس سے مقصود کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنا نہ ہو۔  اور اگر اولاد اس پر راضی نہ ہو تو   بہتر ہے کہ سائل مذکورہ فلیٹ اپنی بیوی کو  نہ دے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(مشكاة المصابيح، كتاب الفرائض والوصايا، باب الوصايا، الفصل الثالث، المجلد الأول، ص:266، ط: قديمي)

ترجمہ: نبی کریم صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: "جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، اللہ تعالٰی اس کی جنّت کی میراث کاٹ لے گا"۔

فتاویٰ التتار خانیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(کتاب الهبة، فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز،  نوع منه،ج: 14 ،ص: 431، ط: زکریا)

 الدر المختار ميں ہے:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) .... وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز."

(رد المحتار، كتاب الهبة، 691،688/5، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں