بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مویشی پر زکوۃ کا حکم


سوال

میرا ایک دوست ہے اس کے پاس دو گاۓ تین بھینس او رپانچ بکریا ں ہیں۔ اور گاۓ اور بھینسوں کا دودھ بیچتا اور خود استعمال کرتا ہے۔ اور ان سے بچے بھی پیدا کرتا ہے اور کبھی کبھی بچے بیچ بھی دیتا ہے۔ کیا ان سب پر زکوة واجب ہوگی؟ جانوروں پر زکوة واجب ہونے کے کچھ اصول بھی بتا دیں تاکہ سمجھ سکیں۔ 

جواب

جانوروں پر زکوۃ واجب ہونے کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:

۱) جو   گائے ،بیل، بکرا ،دنبہ اونٹ وغیرہ نسل بڑھانے اور دودھ کے لیے رکھے جائیں اور وہ سال کا اکثر حصہ چراگاہوں میں چرتے ہوں تو سال مکمل ہونے پر ان پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔ ان سب کی کم سے کم  مقدار جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے  شرعًا متعین ہے۔ اونٹ جب پانچ یا اس سے زائد ہوجائیں ، گائے یا بیل تیس یا اس سے زائد ہوجائیں اور بھیڑ بکریاں جب  چالیس یا اس سے زائد ہوجائیں تو زکوۃ واجب ہوتی ہے۔

۲) جو   گائے ،بیل، بکرا ،دنبہ اونٹ وغیرہ  نسل بڑھانے اور دودھ کے لیے رکھے جائیںں اور ان کو مالک خود چارا کھلاتا ہو توان پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

۳) جو   گائے ،بیل، بکرا ،دنبہ اونٹ وغیرہ  تجارت کی نیت سے  رکھے ہوں چاہے خود ان کو چارا دیتا ہو یا وہ چرا گاہوں میں چرتے ہوں دونوں صورتوں میں یہ جانور مالِ تجارت شمار ہوں گے اور سال گزرنے کے بعد ان کی قیمت پر زکوۃ واجب ہوگی۔

۴)جو   گائے ،بیل، بکرا ،دنبہ اونٹ وغیرہ   باربرداری  یا کھیتی باری کی غرض سے رکھے گئے ہوں یا اس غرض سے رکھے گئے ہوں کہ ان سے گوشت حاصل کریں گے ان پر زکوۃ واجب نہیں ہے،  چاہے ان کو چارا خود دیا جاتا ہو یا چرا گاہوں میں چرتے ہوں۔

صورتِ مسئولہ میں تین بھینسوں اور پانچ بکریوں پر زکوۃنہیں ہے،کیوں کہ یہ نسل بڑھانے اور دودھ کے لیے رکھی گئی ہیں اور ان جانوروں میں تجارت کی نیت نہیں ہے اور نہ ہی ان سے حاصل ہونے والی نسل میں تجارت کی حتمی نیت ہے اور جو زکوۃ کے وجوب کی کم سے کم مقدار ہے اس مقدار کو یہ تعداد نہیں پہنچتی، لہذا  زکوۃ واجب نہیں ہوگی اور تعداد بھی تب معتبر ہو گی جب یہ جانور کسی چرا گاہ میں چریں ، اگر مالک خود ان کے چارے کا انتظام کرے تو پھر تعداد پوری ہونے کے باوجود بھی زکاۃ واجب نہیں ہوگی ،البتہ جو رقم دودھ کو بیچ کر حاصل ہوتی ہے یا بعض اوقات پیدا ہونے والے بچہ کو فروخت کر کے حاصل ہوتی ہے وہ باقی نقدی کے ساتھ شمار کی جائے گی اور سال مکمل ہونے کے وقت جتنی نقدی ہوگی اس پر زکوۃ ادا کر دی جائے گی۔ 

الفتاوى العالمكيرية  میں ہے:

«تجب الزكاة في ذكورها، وإناثها، ومختلطهما والسائمة هي التي تسام في البراري لقصد الدر والنسل والزيادة في السمن والثمن حتى لو أسيمت للحمل والركوب لا للدر والنسل فلا زكاة فيها كذا في محيط السرخسي. وكذا لو أسيمت للحم، ولو أسيمت للتجارة ففيها زكاة التجارة دون السائمة هكذا في البدائع. فإن كانت تسام في بعض السنة وتعلف في البعض فإن أسيمت في أكثرها فهي سائمة، وإلا فلا كذا في محيط السرخسي حتى لو علفها نصف الحول لا تكون سائمة، ولا تجب فيها الزكاة

(کتاب الزکوۃ ،الباب الثانی ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۷۶،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں