بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماوا حرام ہے یا نہیں؟


سوال

ماوا حرام ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  کھانے کی ایسی اشیاء جو حلال اجزاء پر مشتمل ہوں، لیکن ماہرینِ طب کی تحقیق کے مطابق انسانی صحت کے لیے مضر نہ ہوں تو ان کا کھانا جائزہے، البتہ اگر ان کے اجزاء  ہی حرام یا ناپاک  ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں ہوگا اور وہ اشیاء حرام کہلائیں گی،اسی طرح جو اشیاء ناپاک ہیں یا جو گندی اور خبیث ہیں  ان کا استعمال بھی حلال نہیں ہے۔

ملحوظ رہے کہ ماوا بھی گٹکے کی اقسام میں سےہے، ماہرین کے مطابق یہ ایک قسم کامصالحہ ہے جس میں جوزتری ،پستہ،لونگ، الائچی، سرخ مٹی، تیزاب، چونا اور دیگر کیمیائی نشہ آور مادےاستعمال  کیے جاتےہیں،اور اس کےاستعمال سے جبڑے، مسوڑےاور معدہ متاثر ہوتاہے، اور منہ کے کینسر کا باعث بنتا ہے،ممکن ہے بعض جگہ یہ اجزاء استعمال نہ کیے جاتے ہوں۔

لہذا اگر یہ مضرِ صحت ہے تو اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر مضرِ صحت نہیں تو استعمال کرنا جائز ہوگا، اس لیے ماہر ڈاکٹروں سے اس کی تحقیق کرلی جائے، پھر اس کے بعد استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها."

(كتاب الاشربة، ج:6، ص:457،ط:سعيد)

التقریر والتحریر میں ہے:

"الأصل في المنافع الإباحة وفي المضار التحريم."

(الباب الأول في الأحكام وفيه أربعة فصول، :ج:2، ص:135، ط. دار الفكر بيروت)

"تيسير الوصول الى منهاج الاصول" میں ہے:

"والأصل في المضار أي: الأشياء الضارة التحريم، لقوله -عليه الصلاة والسلام-: "لاضرر ولا ضرار في الإسلام" رواه أبو داود في المراسيل."

(الباب الأول: في المقبولة منها: لأول:الأصل في المنافع الإباحة، ج:6، ص:96، ط: دار الفاروق، القاهرة)

"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  "میں ہے:

"والثاني: أن الأصل في المضار التحريم، والمنع لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا ضرر ولا ضرار في الإسلام» وأيضا ضبط أهل الفقه حرمة التناول إما بالإسكار كالبنج وإما بالإضرار بالبدن كالتراب، والترياق أو بالاستقذار كالمخاط، والبزاق وهذا كله فيما كان طاهرا وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف خال عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه وإن لم يثبت انتفاعه فالأصل حله مع أن في الإفتاء بحله دفع الحرج عن المسلمين فإن أكثرهم مبتلون بتناوله مع أن تحليله أيسر من تحريمه وما خير رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين أمرين إلا اختار أيسرهما وأما كونه بدعة فلا ضرر فإنه بدعة في التناول لا في الدين فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام ولو نفع ببعض وقصد به التداوي فهو مرغوب ولو لم ينفع ولم يضر هذا ما سنح في الخاطر إظهارا للصواب من غير تعنت ولا عناد في الجواب، والله أعلم بالصواب."

(مسائل وفوائد شتى من الحظر والإباحة وغير ذلك، مسألة أفتى أئمة أعلام بتحريم شرب الدخان، ج:2، ص:332،  ط: دار المعرفة )

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144407102274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں