بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کی طرف نسبت نہیں کی تو وصیت ہو گی یا نہیں


سوال

ہمارےوالد کا انتقال ہوا ،ان کے ورثاء میں بیوہ ،چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ،ہمارے داد ا،دادی ہمارے والد صاحب سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے ،والد کے انتقال کے بعد ہم نے ترکہ تقسیم کیا ،والدہ کے حصے میں چالیس لاکھ روپے آئے تھے ،جس میں سے دس لاکھ کے والدہ نے اپنی بیٹیوں اور بہووں کو سونے کے سیٹ بنوا کر دیے تھے اور دس لاکھ روپے ہمارے ایک بھائی کو دے دیے تھے کیونکہ ان کو ضرورت تھی اور بعد میں کہہ بھی دیا تھا کہ یہ رقم میں نے واپس نہیں لینی ۔ہماری والدہ ہمارے بڑے بھائی کو کہتی تھیں کہ میرے حصے کے جو پیسے باقی ہیں تم ان کی مسجد بنوا دو مگر ہمارے بھائی نے ان کی زندگی میں مسجد نہیں بنوائی ،وہ کہتے ہیں کہ ایک مسجد بن رہی تھی تو والدہ کی اجازت سے ایک لاکھ روپے اس مسجد میں دیے تھے ،اب والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،بڑے بھائی کہتے ہیں کہ میں اب والدہ کی رقم سے مسجد بنواؤں گا  ،ہمیں اپنے بڑے بھائی پر ان کے معاملات کی وجہ سے اعتماد نہیں ہے ۔

          دریافت یہ کرنا ہے کہ شرعاً والدہ کی مذکورہ رقم کا اب کیا حکم ہے ؟ والدہ کے ورثاء یہ ہیں :چار بیٹے اور دو بیٹیاں  ،نانا اور نانی والدہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے ۔

           واضح رہے کہ والدہ نے ایسا کبھی نہیں کہا کہ اگر میرا انتقال ہو جائے تو بھی ان پیسوں کی مسجد ہی بنانا ۔    

جواب

واضح رہے کہ شرعی طور پر وصیت اسے کہتے ہیں کہ  مرحوم نے  اپنی زندگی میں  اس طرح  کے الفاظ کہے ہوں  کہ" میرے مرنے کے بعد  فلاں کام کرنا "،  اگر اس طرح کے الفاظ مرحوم نے نہ کہے ہوں ،بلکہ صرف ایک کام کرنے کی خواہش کی ہو یا کسی دوسرےشخص  سے کہا ہو کہ فلاں کام کردو اور وہ شخص فلاں  کام نہ کر سکا ہو تو اسے شرعاً وصیت نہیں کہا جائے گا ۔

لہذا رقم سائل کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہو گی ،اور تمام ورثاء میں ان کے مقررہ حصوں کے بقدر تقسیم ہو گی ،البتہ اگر بھائی شرعی ثبوت کے ذریعہ ثابت کردے کہ والدہ نے وصیت کی تھی تو پھر اس رقم کی تہائی سے مسجد بنوائی جائے گی ۔

 مرحومہ والدہ کے ترکہ کی شرعی تقسیم کاطریقہ کار یہ ہے کہ ان کے ترکہ میں سے پہلے ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کےبعد ،اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہواسے باقی ترکہ میں سے اداکرنے کےبعد،اگر انهوں   نے کوئی جائز وصیت کی ہو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذکرنے کےبعد ،ان کے کل ترکہ کے 10حصے کرکے اس میں سے  ہرایک بیٹے کو 2حصے ،ہرایک بیٹی کو ایک،ایک حصہ ملے گا۔

میت:          10

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
222211

یعنی 100 روپے میں سے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 20 روپے اور ہر ایک بیٹی کو 10 روپے ملیں گے۔

الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:

"(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا۔"

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:648،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں