بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کے بعد گھر مسجد و مدرسہ کو وقف کرنے کی وصیت کا حکم


سوال

ایک خاتون کی وفات ہوئی ہے، جو کہ لا ولد تھیں، ورثاء میں شوہر، اور ایک بہن ہے، سگا یا چچا زاد  بھائی کوئی نہیں ہے، بہن سے لا تعلق تھیں، جس مکان میں وہ رہائش پذیر تھیں، اس کے حوالے مرحومہ کی وصیت تھی کہ بعد از وفات یہ مسجد اور مدرسہ کو دے دیا جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس مکان کے کاغذات کس کے پاس ہیں، کسی کو علم نہیں، ان کی بہن یہ مکان فروخت کرنا چاہتی ہیں، لیکن کاغذات کہاں ہیں، اس کا علم نہیں۔

میں مرحومہ کا ماموں زاد بھائی ہوں، مرحومہ نے اپنی اس خواہش کا اظہار کئی بار مجھ سے کیا تھا کہ میں یہ گھر مسجد کا مدرسہ کو دینا چاہتی ہوں۔

ہمیں فتوی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گھر کے کاغذات ملنے کی صورت میں فتوی کی ایک ایک کاپی مرحومہ کے شوہر اور بہن کو دے دی جائے گی۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعتًا مذکورہ خاتون نے اپنی زندگی میں  یہ وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے بعد یہ مکان مسجد اور مدرسہ کو دے دیا جائے،  تو ملحوظ رہے کہ  مذکورہ مرحومہ خاتون کے کل ترکہ میں اگر  یہی مکان ہے، اور مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء مرحومہ کی وصیت کے مطابق پورا مکان مسجد اور مدرسہ کو دینے پر راضی ہوں تو پورا مکان وصیت کے مطابق دیا جا سکتا ہے، وگرنہ  کاغذات مل جانے کی صورت میں کل مکان مسجد و مدرسہ کے لیے وقف کرنا جائز نہ ہوگا،  مکان کے ایک تہائی میں مرحومہ  کی وصیت نافذ کی جائے گی جب کہ بقیہ دو تہائی مکان آدھا آدھا شوہر اور مرحومہ کی بہن میں تقسیم کردیا جائے گا، تاہم تقسیم کی  سب سے بہتر صورت یہ ہوگی کہ اگر مذکورہ مکان میں سے ایک تہائی مکان کا رقبہ بعینہ مسجد و مدرسہ کو دینا اس طور پر ممکن ہو کہ تقسیم کے بعد وہ رقبہ قابل انتفاع باقی بچتا ہو تو مکان کا ایک تہائی رقبہ  بعینہ  دینا ضروری ہوگا، اور اگر  تقسیم کے بعد ایک تہائی حصہ نا قابل انتفاع  ہو تو اس صورت میں مسجد و مدرسہ کے منتظمین سے کہا جائے کہ وہ مذکورہ گھر کے  بقیہ  دو تہائی حصہ کی قیمت ادا  کرکے پورا گھر مسجد و مدرسہ میں شامل کرلیں،  اور حاصل شدہ  نقدی مرحومہ کے شوہر اور بہن کے درمیان نصفاً تقسیم کردی جائے، اور اگر مسجد و مدرسہ کے منتظمین مذکورہ گھر کے دو تہائی حصے کی قیمت ادا کرنے پر راضی نہ ہوں، تو اس صورت میں مرحومہ کا شوہر اور بہن مذکورہ گھر فروخت کرکے کل قیمت کا ایک تہائی  مسجد و مدرسہ کے حوالے کرکے بقیہ رقم شوہر اور بہن کے درمیان نصف نصف تقسیم کردی جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وفي التبيين: لو علق الوقف بموته ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث؛ لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع، ويكون ملك الواقف باقيًا فيه حكمًا يتصدق منه دائمًا".

(كتاب الوقف، حكم الوقف،  ٥ / ٢٠٨، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں