بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موروثی زمین میں موجود بور کا ذکر کیے بغیر زمین تقسیم کرنے سے بور تقسیم نہیں ہوگا


سوال

ہمارے والد صاحب کی زمین میں پانی کے لیے ایک بور  کیا گیا  اس کا سارا خرچہ سب بھائیوں نے مشترک طور پر کیا اور اس کے کل خرچہ کو تقسیم کر لیا جس کے حصے میں جتنا آیا اس کو ادا کیا ۔

ہم پانچ بھائی ہیں اور والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے انتقال کے بعد زمین تقسیم ہوئی تو بور والا قطعہ زمین جس بھائی کے حصے میں آیااس کے بارے میں  معلوم کرنا چاہتاہوں  کہ وہ پانی کا بور وراثت کے تابع ہو کر اس بھائی کی ملکیت میں آئےگا یا بھائیوں نے جو پیسہ دیا تھا ان پیسوں کے لحاظ سے ادائیگی لازم ہو گی؟

جس بھائی کے حصہ میں وہ قطعہ آیا ہے اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

یہ وضاحت ضروری ہے کہ تقسیم وراثت کے وقت اس بور کے سلسلے میں کوئی بات طے نہیں ہوئی، البتہ بظاہر سب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ابھی زمین کی تقسیم  کا معاملہ نمٹ جائے بور کے مسئلہ پر بات ہو جائے گی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  تمام بھائیوں نے والد صاحب کی زندگی میں بور کے لیے جو رقم ادا کی اگر اسے ادا کرتے وقت قرض کی صراحت نہیں  کی تھی تو یہ رقم بھائیوں کی طرف سے ہبہ تھی اور یہ بور والد صاحب کی ملکیت میں آگیا تھا ، پھر والد صاحب کی وفات کے بعد  ان کی دیگرجائیداد کی طرح یہ بور بھی ان کے تمام ورثاء کے درمیان مشترک تھا ، اس کے بعد  جب بور کا ذکر کیے بغیر پانچ بھائیوں  نے زمین آپس میں تقسیم کی تو یہ بور زمین کا تابع ہو کر اس بھائی کی ملکیت میں نہیں آیا جس کے حصے میں زمین کا وہ قطعہ آیا بلکہ یہ بور حسبِ سابق والد مرحوم کے تمام ورثاء میں مشترک رہا اور تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے بقدر اس کے حق دار ہیں اور اس بور میں سے پانی بھی لے سکتے ہیں۔

المحيط البرہانی  میں ہے:

"وتدخل الشجرة في قسمة الأراضي، وإن لم يذكروا الحقوق والمرافق كما تدخل في بيع الأراضي، لا يدخل الزرع والثمار في قسمة الأراضي، وإن ذكروا الحقوق لأن الثمار والزرع ليست من حقوق الأرض فحقوق الأرض ما لا ينتفع بها بدون الأرض، فيكون من توابع الأرض، والزرع والثمار مما ينتفع بها دون الأرض فلا تكون من حقوق الأرض".

(‌‌كتاب القسمة،‌‌الفصل الرابع: فيما يدخل تحت القسمة من غير ذكر وما لا يدخل7/ 352،ط: دار الکتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"دار بين قوم اقتسموها فوقع في نصيب أحدهم بيت فيه حمامات فإن لم يذكروا الحمامات في القسمة فهي بينهم كما كانت".

(كتاب القسمة،الباب الرابع فيما يدخل تحت القسمة من غير ذكر وما لا يدخل فيها5/ 216،ط:رشيديية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144304100830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں