بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ مکان کے متعلق سوالات کے جوابات


سوال

مرحوم  ...  کے لواحقین کی تفصیل، بیگم  ... جن کا انتقال 2016 میں ہوا تھا۔ مرحوم کے سات بچے ہیں اور سب حیات ہیں۔ چار بیٹے اور تین بیٹیاں۔ چار بیٹے اور دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔ ایک بیٹی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔

سوال 1- ہمارے والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پاس 9 لاکھ دس ہزار موجود ہیں۔ سب بہن بھائیوں نے مشترکہ فیصلے کے بعد یہ تمام کی تمام رقم مرحوم کے صدقہ جاریہ کے استعمال میں لانے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ آپ کی طرف سے اس کے بارے میں رائے چاہیے؟

سوال 2- ہمارے والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پاس تین پلاٹ تھے۔ ہم تمام بہن بھائیوں نے مشترکہ رضامندی سے فیصلہ کیا ہے ان پلاٹوں کو بیچ کے جو رقم حاصل ہو وہ مرحوم کے صدقے کے لیے استعمال ہو۔ اسی  رقم سے ہم اپنی والدہ یعنی مرحوم کی بیوی کے لیے  بھی صدقہ کریں گے؟

سوال 3 - والد صاحب مرحوم کے جو استعمال کی چیزیں موجود تھیں اس میں سے ہم بہن بھائیوں نے آپس کی رضامندی سے کچھ چیزیں نشانی اور استعمال کے لیے رکھ لی ہے، بقیہ ہم خیرات کرنے کے خواہش مند ہیں کیا خرچ کر سکتے ہیں؟

سوال 4 - مرحوم نے وراثت میں ایک مکان بھی چھوڑا ہے اس کا ایڈریس پچھلے صفحے پر موجود ہے۔ سات بہن بھائیوں میں دو بھائی اور ایک بہن ملک سے باہر رہتے ہیں۔ دو بھائی اور ایک غیر شادی شدہ بہن اس مکان میں مستقل رہتے ہیں۔ آخری شادی شدہ بہن بھی پاکستان میں رہتی ہے اور آتی جاتی رہتی ہے۔ بھائی جو ملک سے باہر رہتے ہیں وہ بھی چھٹی میں اس مکان میں رہتے ہیں۔ تمام بہن بھائیوں نے بھی اس مکان سے اپنا حصہ نہیں مانگا ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ یہ مکان جس طرح پہلے قابل استعمال تھا ویسے ہی رکھا جائے۔ مکان کی آج کی قیمت تقریبا تین کروڑ ہے۔

اس حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات ہیں:

 الف۔۔ جب یہ مکان بکے گا یا جب کوئی بھی وارث اپنا حصہ مانگے تو کیا اسے رقم مکان کی آج کی قیمت سے ادا کی جائے گی یا اس وقت کے حساب سے جب وہ حصہ مانگے گا؟

 ب۔ جب بھی کوئی بہن بھائی حصے کا طلب گار ہو گا تو کیا بقیہ بھائی بہن (ایک یا مل کر) اس بہن بھائی (جس نے حصے کی طلب کی ہے) کو اپنے پاس سے اس کے حصے کے برابر رقم دے سکتے ہیں یا مکان بیچ کر رقم ادا کرنی ہوگی؟

 پ۔  کیا کوئی بہن بھائی اپنے حصے سے دست بردار ہو سکتا ہے؟  اگر ہاں تو اس صورت میں ان کے حصے کا حق دار کون ہوگا؟

ت۔  کیا یہ بہتر ہے کہ سب کا حصہ ابھی دے دیا جائے؟

سوال 5- جس مکان کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ والد صاحب (مرحوم) کا تھا اس مکان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو والد صاحب نے خریدی تھیں۔ بعض چیزیں بھائیوں اور بہنوں نے بھی خریدیں جو اب اس گھر کا حصہ ہے اس حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات ہیں:

الف۔۔ اوپر بتائی گئی اشیاء کو شریعت کے حساب سے کیسے دیکھا جائے گا؟

ب۔۔ جو چیزیں والد صاحب نے خریدی تھیں،  کیا ان کو تقسیم کر دیا جائے؟

پ۔۔ جو چیزیں بھائیوں اور بہنوں نے لائیں  کیا ان کو لوٹا دیا جائے؟ الحمداللہ کوئی بھی بہن بھائی ان چیزوں کے بارے میں کوئی لالچ یا خواہش کا اظہار نہیں کیا اور ان تمام چیزوں کو گھر کے استعمال کے لئے دے دیا ہے۔ جب کسی بہن بھائی کو کوئی چیز درکار ہو گی تو وہ دوسرے بہن بھائیوں سے اجازت لے کر استعمال کرے گا یا حاصل کرے گا؟ 

سوال 6 - کیا والد صاحب کے پیسوں سے یا کسی اور طریقے سے ان کی نماز روزہ اور زکوۃ میں جو جو کمی بیشی رہ گئی تھی پوری ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایک نماز اور ایک روزے کی رقم کتنی دینی ہوگی؟ 

سوال 7- وراثت میں مرحوم کے بہن بھائی اور قریبی رشتہ داروں کا حصہ ہوتا ہے اگر ہاں تو کس طرح تقسیم ہوگا؟

سوال 8 - مرحوم کی بیوی کا کیا حصہ ہوگا جب کہ بیوی کا انتقال ہوگیا ہے؟

سوال 9- کیا ہم یہ والد کا مکان اپنی غیر شادی شدہ بہن کے نام کر سکتے ہیں؟

سوال 10- بہترین صدقہ جاریہ کون سا ہے؟

سوال 11۔ جیسے کہ اوپر ذکر ہوا ہے اس مکان میں دو بھائی اور ایک غیر شادی شدہ رہتے ہیں اور بقیہ دو بھائی باہر رہتے ہیں صرف چھٹی گزارنے آتے ہیں، بقیہ دو بہنوں کی شادی ہوئی ہے۔ ہم سب بہن بھائی کا یہ اتفاق ہے کہ اس گھر میں رہنے والے بھائیوں سے اور بہن سے کوئی کرایہ وغیرہ نہیں لیا جائے گا اور یہ لوگ ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے رہتے تھے؟ 

سوال 12- والد صاحب کے دور کے ضرورت مند رشتے دار زندہ ہیں، کیا ان کا کوئی حصہ ہے؟ والد صاحب کی خواہش اور وصیت تھی کہ اس مکان کو نہ بیچا جائے فوری اور اس میں رہنے والے جو لوگ ہیں وہ ویسے ہی محبت کے ساتھ رہیں۔ 

جواب

1- 2- مرحوم کے انتقال کے وقت مرحوم کی ملکیت میں جتنی بھی اشیاء، نقدی، پلاٹ، مکان وغیرہ وہ سب  مرحوم کا ترکہ (میراث) شمار ہو گا، اور مرحوم کے ورثاء (بیٹے، بیٹیوں) میں  ان کی شرعی حصوں کے مطابق تقیسم کیا جائےگا۔ مرحوم کے انتقال کے بعد مرحوم کی ملکیتی تمام اشیاء سے مرحوم کا حق ختم ہو چکا ہے، اب وہ ورثاء کا حق ہے، اگر مرحوم کے تمام ورثاء (اولاد، بیٹے، بیٹیاں) سب کے سب عاقل وبالغ ہیں اور وہ اپنی خوشی سے اس بات پہ راضی ہیں کہ ہمیں اپنا  حصہ نہیں چاہیے، اور سب مل کر اپنے مرحوم والدین کے لیے صدقہ جاریہ کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کر کے تمام ورثاء کو ان کا حصہ دے دیا جائے اس کے بعد جو وارث (بیٹا بیٹی) اپنا حصہ مرحوم والدین کے ایصال ثواب  کرنا چاہے تو کر دے، اور جو نہیں کرنا چاہتا وہ اپنے استعمال میں لے آئے۔

3- یہ سب چیزیں مرحوم کا ترکہ ہیں اس میں سب ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے اعتبار سے شریک ہیں، اگر مذکورہ طریقہ پر اپنی خوشی سے صدقہ کرناچاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، اگر کوئی وارث راضی نہیں ہے تو دیگر ورثاء پر اس کا حصہ دینا لازم ہے، نیز باہمی رضامندی سے بطور نشانی بھی مختلف اشیاء رکھ سکتے ہیں۔ 

4 - الف:  جب کوئی وارث حصہ مانگے، اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ (ب):  مکان بیچنا ضروری نہیں ہے، رقم بھی دے سکتے ہیں۔ (پ) پہلے ترکہ تقسیم کر کے اس کا حصہ الگ کر دیا جائے پھر اگر وہ کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے یا پھر وہ اپنے حصے کے عوض کوئی معمولی چیز لے کردستبرار ہوسکتے ہیں۔کچھ بھی نہ لیے بغیر دستبرداری درست نہ ہوگی۔  (ت): یہی بہتر ہے کہ ابھی تقسیم کر کے ہر وارث کو اس کاحصہ دے دیا جائے، بلا وجہ تاخیر سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

5 - جو چیزیں والدین مرحوم کی ہیں وہ تو تمام ورثاء میں تقسیم ہوں گی، اور جو چیزیں بہن بھائیوں نے والدین کی حیات میں لا کر والدین کو  دے دی تھیں وہ بھی سب میں تقسیم ہوں گی، اور جو چیزیں والدین کو مالک بناکر نہیں دی تھیں وہ ترکے میں شامل نہیں ہوں گی۔

6 - مرحوم  کی قضا نماز اور روزوں کی تعداد معلوم ہو تو  وتر کے ساتھ  ایک  دن کی چھ نمازیں شمار کرکے ہر نماز اور  ہر روزے  کا فدیہ ایک صدقۃ الفطر کے برابر ہے، اور ایک صدقۃ الفطر کی مقدار  پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے، اور نقد دینا  زیادہ بہتر ہے، اگر تعداد معلوم نہ ہو تو اندازے سے ادا کر دی جائے۔

(نوٹ: مرحوم نے اگر اپنی نماز روزوں کے فدیہ کی وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ سے ادا کرنا ضروری ہے، اور تہائی سے زائد میں ورثاء کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ اور اگر وصیت نہیں کی تو پھر فدیہ کہ ادائیگی ورثاء پر لازم نہیں ہے۔ تاہم اگر ورثاء اجتماعی یا انفرادی طور پر اپنی طرف سے ادا کر دیں تو میت پر احسان ہو گا۔ وصیت کے بغیر زکوۃ کی ادائیگی بھی ضروری نہیں ہے، مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے نفلی صدقات وخیرات کر دی جائے۔)

7 و8 - مرحوم کی اولاد، بیٹے، بیٹیوں کی موجودگی میں مرحوم کے بھائی، بہن اور دیگر قریبی رشتہ دار حصہ دار نہیں  بنتے، ان کا حصہ نہیں ہوتا۔ نیز مذکورہ صورت میں مرحوم کی مرحومہ بیوی  کا مرحوم کی میراث (ترکہ) میں حصہ نہیں ہے۔

9 - باقی سب بہن، بھائی راضی ہوں تو دے سکتے ہیں۔

10و11- صدقہ جاریہ کی ایک بہترین صورت وقف فی سبیل اللہ بھی ہے، یعنی کوئی جائیداد مسجد یا مدرسہ یا عامۃ المسلمین کے نفع کے لیے وقف کردی جائے، یا کسی جگہ پانی کا کنواں کھدوا کر وقف کر دیا جائے، اِس طرح کے اوقاف کا ثواب تادیر جاری اور باقی رہتا ہے۔نیزاس مکان میں تمام بہن بھائی شریک ہیں، اگر  سب کرایہ نہ لینے پر راضی ہوں  (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو درست  ہے۔

 12- والد مرحوم  کے دور کے رشتہ داروں کا حصہ نہیں ہے۔ نیز  یہ مکان  اب مرحوم کے انتقال کے بعد  مرحوم کے ورثاء (اولاد بیٹے، بیٹیوں) کا ہے، اور وہ اپنے حصے کے مطابق اس میں شریک ہیں، اگر آپس کی رضامندی سے مکان نہ فروخت کرنےپر متفق ہیں تو بھی درست ہے۔ اگر کوئی ایک شریک بھی راضی نہ ہو تو تقسیم کر کے اس کا حصہ دینا ضروری ہے۔

باقی مرحوم کی ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا  قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحومنے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ کو   11 حصوں میں تقسیم کر  کے  مرحوم کے ہر ایک  بیٹے کو 2/ حصے اور مرحوم کی ہر ایک  بیٹی کو 1 حصہ ملے گا۔

یعنی: فیصد کے اعتبار سے 100 روپے میں سے 18.18 فیصد مرحوم ہر ایک بیٹے  کو، اور  9.09 فیصد ہربیٹی کو ملے گا۔فقط واللہ اعلم

نوٹ: اگر آپ کی والدہ مرحومہ کا انتقال والد صاحب کے بعد ہوا، اور والدہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین بھی  حیات تھے تو وضاحت کرکے ترکے کے حصوں کے بارے میں دوبارہ معلوم کرلیجیے۔

 


فتوی نمبر : 144204201189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں