بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ جائیداد تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہے


سوال

جب میری عمر بارہ سال تھی تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا،ہم سب بہن بھائیوں کو ہمارے بڑے بھائی نے سنبھالا تھا،سب کی شادیاں بھی کروائیں ، میں بھی بڑے بھائی کے ساتھ رہا اور میں نے  ان کے پاس ہی کام کیا اور انہوں نے میری شادی بھی کروائی۔

ہمارے والد صاحب کا اورنگی ٹاؤن میں ایک مکان تھا، جس کا کرایہ بہت عرصہ سے بھائی لیتے تھے،  اب بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اور بھائی کے بچے یہ کہتے ہیں کہ یہ مکان ہمارے والد کے نام پہ ہے،حالاں کہ میں نے کبھی اپنا حصہ بھائی کو نہیں دیا اور میں نے بہنوں سے بھی پوچھا ہے، انہوں نے بھی اپنا حصہ بھائی کو نہیں دیا تھا۔

 جب بڑے بھائی نے ہمارا خیال رکھا ،ہماری شادیاں کروائیں تو کیا اس سے ہمارے والد کے مکان میں سے ہمارا حصہ بھائی کا ہوگیا یا ہمیں اب بھی والد کہ ترکہ میں سے مطالبہ کا حق ہے؟

وضاحت:

1۔ مذکورہ گھر والد صاحب کو ہمارے دادا سے ملا تھا، والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، والد صاحب کی پہلی بیوی سے ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔

دوسری شادی کے بعد والد نے مذکورہ گھر پہلی بیوی اور بچوں کو دے دیا تھا، اور وہ دوسری بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔

بڑے دو بھائی اور ایک بہن  کا انتقال ہو چکا ہے، تین ماہ پہلے سب سے بڑے بھائی کا انتقال ہوا، جو تقریبا  پچھلے 26 سال سے مذکورہ گھر کا کرایہ خود وصول کر رہے تھے، اور انہی بھائی نے ہم سب کو پالا تھا، شادیاں کروائی تھیں۔

اب جب میں نے ان کے بیٹے سے مذکورہ گھر کی تقسیم کی بات کی تو اس نے کہا کہ مذکورہ گھر ہمارے والد یعنی ہمارے بڑے بھائی کے نام پر ہے، اب یہ معلوم نہیں کہ  ان کے نام پر کیسے ہوا ہے؟ جب کہ والد  صاحب کے دیگر بھائیوں کی اولاد  کا کہنا ہے کہ مذکورہ گھر ہمارے والد کے نام پر تھا ۔

2۔ ہماری شادیاں کراتے وقت بڑے بھائی نے کبھی نہیں کہا کہ یہ والد کی میراث میں سے تمہارا حصہ ہے، اور نہ ہی ہم میں سے کسی بھائی بہن نے میراث کے نام پر کوئی بھی چیز وصول کی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ مذکورہ مکان سائل کے والد کا تھا تو سائل کے والد کے انتقال کے بعد یہ مکان تمام ورثاء کا ہے، لہذا  مذکورہ مکان کو  تمام ورثاء میں تقسیم کرنا شرعا ضروری ہوگا،  سائل کے بھتیجوں کایہ  دعوی درست نہیں کہ یہ مکان اس کے والد کے نام ہونے کی وجہ سے اس پر صرف ان کا حق ہے۔

سائل کے مرحوم بھائی نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ جو حسنِ سلوک روا رکھا، اس کے اجر کے وہ  مستحق ہوں گے، تاہم اس احسان کے سبب وہ والد مرحوم کے متروکہ گھر کے اکیلے مالک قرار نہیں پائیں گے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله - سبحانه وتعالى - أعلم.

( كتاب الحدود، فصل في بيان صفات الحدود، ٧ / ٥٧، ط: دار الكتب العلمية)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

(المادة ١٠٧٣) - (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة

( الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ٣ / ٢٦، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں