بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ قرضہ کی زکوٰۃ / مرحوم کی نمازوں کا فدیہ


سوال

1۔ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، والد صاحب  کا لوگوں پر قرضہ ہے  مارکیٹ میں، جو ہم وصول کریں گے جو ہمیں ٹکروں میں مل رہا ہے، اس قرضہ پر زکوٰۃ  ہے یا نہیں، اگر ہے تو کس حساب سے ادا کرنی پڑے گی؟

2۔ والدین کا انتقال ہوگیا ہے، ان پر کچھ  قضاء نمازیں تھیں اور اس سے متعلق کوئی وصیت نہیں کی تھی، ان کا فدیہ کیسے ادا کیا جائے؟

جواب

1۔  ترکہ کی رقم جب تک تقسیم نہ ہو  اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے،   اور تقسیم کے بعد ورثاء میں سے  جو پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں  تو سابقہ مال پر سال مکمل ہونے کی صورت میں  ترکہ سے حاصل ہونے والے مال  کی بھی زکوٰۃ کی ادائیگی   لازم هوگی،  اور   جو پہلے سے صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ ترکہ ملنے پر نصاب کے مالک بنے ہوں تو پھر جب تک اس مال پر قمری مہینوں کے اعتبار سے  مکمل  سال نہ گزرجائے  اس وقت تک اس مال پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے، لہذا  صورت ِ مسئولہ میں سائل کے  مرحوم والد نے جو لوگوں کو قرضہ دیا تھا وہ ان کے انتقال کے بعد  ان کا ترکہ ہے، اس کے وصول ہونے کے بعد جب وہ ورثاء میں تقسیم ہوجائے تو  ورثاءپر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق زکوٰۃ لازم ہوگی، اس کی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول."

(1 / 175، کتاب الزکاۃ، الباب الاول  فی تفسیر الزکاۃ، ط: رشیدیة)

2۔ اگر مرحوم  نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی رضا وخوشی سے ترکہ میں سے یا  کوئی عاقل بالغ وارث اپنے حصے یا  مال سے مرحوم کی  نمازوں كا فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ درست ہے، اور یہ اس   وارث کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔نیز ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر  کی مقدار کے برابر پونے دو کلو گندم یا اس کی  قیمت ہے۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح    میں ہے:

"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك  لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه."

(ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃ والصوم، ط: المکتبة العصریة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں