ایک شخص نے اپنے انتقال سے پہلے اولاد میں اپنی زمین شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کر کے مکمل قبضہ دے دیاتھا ،اور صرف ایک گھر جس میں اس کی تین شادی شدہ بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنی پوری فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ،اس گھر میں وراثت کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہوگا ؟آیا بھائی سب بہنوں کو ان کے حصے کی رقم دے کر گھر سے روانہ کردے اور خود گھر میں رہتا رہے یا گھر بیچ کر سب کو ان کے حصے کے برابر رقم دیدے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیاجائے گا، ہر ایک کو اس کے حصے کے بقدر گھر کا متعین حصہ یا اس کے حصے کے برابر رقم دی جائے گی اور اگر گھر قابلِ تقسیم نہ ہو تو اس کو فروخت کیا جائےیا کوئی وارث اس مکان کو خرید لے دونوں صورتیں ممکن ہیں ، جس صورت میں ورثاء کو ان کے شرعی حصے ادا ہوسکے وہ صورت اختیار کر لی جائے۔
تحفة الفقہاء میں ہے:
"الشركة الأملاك على ضربين أحدهما ما كان بفعلهما مثل أن يشتريا أو يوهب لهما أو يوصى لهما فيقبلاوالآخر بغير فعلهما وهو أن يرثا والحكم في الفصلين واحد وهو أن الملك مشترك بينهما وكل واحد منهما في نصيب شريكه كالأجنبي لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذنه ."
(كتاب الشركة، ج:3، ص:5، ط:دار الكتب العلمية)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال - رحمه الله - (ولا تدخل في القسمة الدراهم إلا برضاهم)؛ لأنه لا شركة فيها ويفوت به التعديل أيضا في القسمة؛ لأن بعضهم يصل إلى عين المال المشترك في الحال، ودراهم الآخر في الذمة فيخشى عليها التوى ولأن الجنسين المشتركين لا يقسم فما ظنك عند عدم الاشتراك."
(كتاب القسمة، الإجبار على القسمة، ج:5، ص:271، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"وإذا كانت في التركة دار وحانوت و الورثة كلهم كبار وتراضوا على أن يدفعوا الدار والحانوت إلى واحد منهم عن جميع نصيبه من التركة جاز لأن عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إنما لا يجمع نصيب واحد من الورثة بطريق الجبر من القاضي وأما عند التراضي فذلك جائز."
(كتاب القسمة ، الباب الثاني في بيان كيفية القسمة، ج:5، ص:205، ط:دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144410101910
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن