بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ مکان میں تعمیر کے خرچ کا مطالبہ کرنا


سوال

میرے مرحوم شوہر نے فالج کی معذوری کی وجہ سے دوبڑے بیٹوں کو (جو اس وقت زیر تعلیم اور والد کی زیر کفالت تھے) سہولت اور مددگار کے طور پر ذاتی کاروبارشامل کرلیا۔ تمام آمدنی اسی کاروبار سے ہوتی تھی۔ وفات تک ذاتی اور گھریلو اخراجات مشترکہ طورپر کرتے تھے۔ مرحوم نے زندگی میں ذاتی مکان کی اوپری منزل کی تعمیر دوعلیحدہ پورشنز کے طور پر شروع کی ،پورشنز کوکاروبارمیں معاون دوبیٹوں کے لیے متعین بھی کردیا۔

تعمیری کاموں کے اخراجات اپنے کاروبارسے حاصل شدہ آمدن سے ادا کرتے رہے ،وفات تک مکان ٪70 مکمل ہوچکا تھا۔ وفات کے بعد بقیہ تکمیل بیٹوں نے اپنے طور پر کی اوراس میں رہائش بھی اختیارکرلی۔ ہم مکان فروخت کرکے اس کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

بڑے بیٹے کا دعوٰی ہے کہ والد فالج کی وجہ سے معذورتھے اورآفس میں رہتے تھے ،ساری محنت اور کام ہم ہی کرتے تھے ،اس لیےکاروبارمیں میری محنت کی کمائی اسی کی مانی جائے گی اوراوپرکی منزل میں جتنے اخراجات لگے ہیں وہ سب قرض شمار کیے جائیں اور اخراجات کی رقم مکان کے حصوں سےالگ کرکے ادا کی جائے ۔بیٹے کا اپنے مطالبے کا والد کے ساتھ پہلے سے کوئی معاہدہ یا ثبوت موجود نہیں اور نہ کبھی مرحوم شوہرنے یہ بات مجھ سے کہی۔

کیا بیٹے کا مطالبہ شرعاً جائزمانا جائے گا اور اس کی لگائی ہوئی رقم کو الگ سے ادا کرنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ مرحوم شوہر نے اپنی بیماری کی وجہ سے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے مملوکہ کاروبار میں بطور معاون (مددگار)شامل کیا تھا اور تمام آمدنی اسی کاروبار سے ہوتی تھی،تو ایسی صورت میں مذکورہ کل کاروبار اور اس کے تمام منافع کا مالک اکیلا شوہر تھا، مذکورہ دونوں بیٹوں کی شرعی حیثیت معاون اور مددگار کی تھی، جنہوں نے اپنے والد کے اس کاروبار میں ہاتھ بٹایا،محنت کی،ان بیٹوں میں سے کسی بیٹے کی حیثیت شریک (پارٹنر)کی نہیں تھی، لہذا مرحوم کی زندگی میں شوہر کے اس مملوکہ مکان میں شوہر کی زندگی میں جس قدر تعمیراتی کام ہوا، یا شوہر کے انتقال کے بعد بیٹوں نےمتروکہ مذکورہ کاروبار کی آمدنی سے جس قدر تعمیراتی کام کیاتو یہ تمام تعمیرات شرعاً مرحوم شوہر کا ترکہ ہے،مذکورہ بڑے بیٹے کی طرف سے تعمیراتی اخراجات کا مطالبہ کرنااور یہ دعویٰ کرنا کہ کاروبار میں اس کی محنت کی کمائی اس کی مانی جائے گی، تو یہ کہنا شرعاً درست نہیں ہے۔

نیز مرحوم شوہر نے مکان کے دونوں پورشنز جو زبانی طور پر ان دونوں بیٹوں کے لیے صرف متعین کیا تھا ،ان دونوں کا مالکانہ قبضہ اور تصرف نہیں دیاتھا تو محض تعیین سے یہ دونوں بیٹے ان پورشنز کے مالک نہیں بنے، بلکہ یہ کل مکان مرحوم شوہر کا ترکہ ہے، اور تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لو ‌اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا ‌اجتمع بعملهما أموال كثيرة، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان"۔

(كتاب  الشرکۃ ، فصل  فی الشرکۃ الفاسدۃ ، ج:4 ، ص:325 ،ط:ايچ ايم سعيد)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"و أما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ."

(کتاب الدعوی/ج:2/ صفحہ:18، ط:  دار المعرفۃ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں