کیا قبر کی مٹی کو لاکر پی سکتے ہے؟
واضح رہے کہ مٹی کھانا مکروہ ہے، چاہے بزرگوں کی قبر کی مٹی ہو یا دوسری کسی جگہ کی مٹی،چنانچہ فتاوی ہندیہ میں لکھا ہے کہ مٹی چاہے مکہ معظمہ سے لائی گئی ہو، کراہیت میں سب مٹی برابر ہے او رکراہیت کی وجہ اس کی حرمت نہیں ہے، بلکہ مورث ِامراض ہونے کی وجہ سے ہے، حضرت ابوالقاسم سے مٹی کھانےکے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ: ”یہ عقل مندوں کا کام نہیں“ بعض فقہاء سے منقول ہے کہ اگر مُضر نہ ہو تو مضایقہ نہیں ۔
حاصل یہ کہ اگر مٹی کھانا نقصان دہ نہ ہو اور کھانے سے ایسی منفعت کا حصول متوقع ہو، جو کسی اور چیز سے حاصل نہ ہوتو بقدرِ ضرورت کھانے کی گنجائش ہے، عام حالات میں مکروہ ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أكل الطين مكروه ... الطين الذي يحمل من مكة ويسمى طين حمزة، هل الكراهية فيه كالكراهية في أكل الطين على ما جاء في الحديث؟ قال: الكراهية في الجميع متحدة، كذا في جواهر الفتاوى. وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال لا بأس بذلك ما لم يضر وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء ... وسئل أبو القاسم عمن أكل الطين قال ليس ذلك من عمل العقلاء، كذا في الحاوي للفتاوى۔"
(کتاب الکراہیۃ، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به: 5 / 340، ط: رشیدیہ)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100103
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن