بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ دوکان کو صدقہ کرنا


سوال

میری والدہ 3 ماہ پہلے وفات پاچکی  ہیں،  والدہ کی اپنی ذاتی دکان ہے جو کرائے پر ہے، میری ماں اپنی  زندگی میں حج نہیں کرسکیں، تو  سوال یہ ہے کہ اس دوکان کو فروخت کرکے ان  کی جگہ میں حج کرو ں یا میرے محلے میں ایک مسجد تعمیر ہورہی ہے اس دکان کو فروخت کرکے پیسے اس مسجد کے لیے وقف کرنا ٹھیک رہے گا؟ 

جواب

 مرحومہ کے انتقال کے وقت مرحومہ کی ملکیت میں جتنی بھی اشیاء، نقدی، پلاٹ، مکان وغیرہ  تھے وہ سب  مرحومہ کا ترکہ (میراث) شمار ہو گا، اور مرحومہ کے ورثاء (بیٹے، بیٹیوں) میں  ان کی شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائےگا۔ مرحومہ کے انتقال کے بعد مرحومہ کی ملکیتی تمام اشیاء سے مرحومہ کا حق ختم ہو چکا ہے، اب وہ ورثاء کا حق ہے، اگر مرحومہ کے تمام ورثاء (اولاد، بیٹے، بیٹیاں) سب کے سب عاقل وبالغ ہیں اور وہ اپنی خوشی سے اس بات پہ راضی ہیں کہ ہمیں اپنا  حصہ نہیں چاہیے، اور سب مل کر اپنی والدہ مرحومہ  کے لیے صدقہ جاریہ کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں یاپھر چاہیں  تو ان کی طرف سے حج کرلیں،تاہم بہتر یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کر کے تمام ورثاء کو ان کا حصہ دے دیا جائے اس کے بعد جو وارث (بیٹا بیٹی) اپنا حصہ مرحوم والدین کے لئے ایصال ثواب  کرنا چاہے تو کر دے، اور جو نہیں کرنا چاہتا وہ اپنے استعمال میں لے آئے۔

مجلۃ الاحكام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 1075) كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه".

(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة ،ص206)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں