بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر کھانا دینے کی چند صورتیں


سوال

کیافرماتےہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ مثلاً کہ ایک محلےمیں تقریباً100گھرانےہیں ،فوتگی کےموقع پرمیت والوں کے لئےباقی سب یا اکثرحضرات ہمدردی کےطورپراپنےگھروں سے کھانالانےکا انتظام کرتےہیں،کیوں کہ ایسےموقع پرتعزیت کے لئےمرداورعورتیں دوردرازسےتشریف لاتےہیں، تواگریہ سارےحضرات یااکثرحضرات میت کےگھرکھانالائیں تواس طریقےسےکھاناوغیرہ زیادہ آنےکی وجہ سےاسراف اوربے احتیاطی ہوتی ہےجوکہ شریعت میں صحیح نہیں، اگرباہمی مشورہ کے ساتھ:

1.اس بےاحتیاطی اوراسراف سےبچنےکیلئےیہ ترتیب وضع کی جائےکہ جولوگ کھانالانےکاانتظام کرتےہیں،ان حضرات کوتین گروپ میں تقسیم کیا جائےاورہرایک گروپ کوایک ایک دن ترتیب کے ساتھ اپنی خوشی سےبلاجبرواکراہ اپنے اپنے گھروں سےکھانےکاانتظام کریں تواس میں اسراف اور بےاحتیاطی اور بے ادبی نہ ہوگی۔

2.جوحضرات ہمدردی کےساتھ روٹی کاانتظام کرتے ہیں وہ یہ مشورہ کریں کہ ہرگھر والامثلاً ایک ایک ہزارروپے بلاجبرواکراہ اکٹھاکرکے میت والوں کودیدیں اوروہ بالترتیب مہمانوں کی تعداد کےمطابق کھانے کاانتظام کریں۔

توان دونوں طریقوں میں سےایک کواختیارکرنےسےایک فائدہ یہ ہوگاکہ بےاحتیاطی اوراسراف نہ ہوگا،دوسرایہ کہ اس میں آسانی ہےدشواری نہیں ہے۔اس دوسری صورت میں اگرایک شخص اپنے آپ کو اپنی مرضی سے کمیٹی سے خارج کرتاہے اورکہتاہے کہ میں روپے نہیں دیتا، بلکہ اپنی خوشی سے میت والوں کےلئے کھانالانے کاانتظام کروں گا،تواس پرجبرنہ ہوگاوہ خارج ہوسکتاہے، دوسرایہ کہ یہ رقم ان حضرات کو ملےگی جنہوں نے رقم دینےکا مشورہ کیاہے،اوردوسرےحضرات کواس وجہ سے نہیں ملے گی کہ وہ اپنی خوشی سے کھانالانے کاانتظام کرتےہیں ۔

یہ مذکورہ دونوں صورتیں صحیح ہیں  یا کون سی صورت صحیح ہے؟ ان دونوں مذکورہ صورتوں میں قابل اصلاح باتوں کی طرف آپ کی توجہ کرتا ہوں: 1.کمیٹی والے بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگرایک گھر میں ایک باپ کے تین یا چار شادی شدہ بیٹے ہیں تواس کی دوصورتیں ہیں:

(1) سارے بیٹے باپ کےساتھ شریک ہیں، یا باپ فوت ہوچکاہے،چاربھائی شریک ہیں تویہ ایک گھرشمار ہوگا،اوروہ صرف ایک ہزارروپےدےگا۔

(2)سارےبیٹےیابھائی جداجداہیں تو اس صورت میں ہرایک بیٹایابھائی ایک ایک ہزار روپے دے گا۔

تو آیا یہ دونوں صورتیں صحیح ہیں  یا کون سی صورت صحیح ہے؟

اگرکمیٹی والے حضرات مثلاً 100ہیں تو ایک ایک ہزاراکٹھاکرنے سے ایک لاکھ روپے بنتے ہیں اورپھرمشورہ یہ کریں کہ میت والوں کو 70ہزاریا80ہزار دیں گے، اور باقی20ہزار یا30ہزارفنڈمیں رکھناکیساہے؟ یاساری رقم دیناچاہئے ؟ 3.اگران افرادمیں سےایک کے گھرمیں مثلاًایک سال میں چاردفعہ فوتگی ہوجائےاورباقی افرادمیت والےکوہرفوتگی کےموقع پرکھانے کاانتظام کریں یارقم دینےکاانتظام کریں پھروہ ایک سال بعددوسرے گاؤں  منتقل ہوجائے اوراسی سال باقی افراد کے گھروں میں فوتگی نہ ہوئی ہو  تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جواہے کہ ایک فردکوایک سال کے اندرچاردفعہ فوتگی کے موقع پرکھاناکھلایاگیایارقم مل گئی اور باقی افرادکو نہیں ملی ، تو آیاان حضرات کی یہ بات صحیح ہے ؟

جواب

میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے، غزوۂ موتہ میں جب نبی کریم ﷺ  کے چچا زاد بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر آپ ﷺ  تک پہنچی تو آپ ﷺ  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرو ،کیوں کہ ان پرایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں(دیگر اُمور سے )مشغول کردیا ہے۔ 

میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔

مروجہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے مقاصد بظاہر  نیک اور  ہمدردانہ ہیں، لیکن یہ کمیٹیاں مذکورہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتوں پر مشتمل  ہیں:

1-کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو بسااوقات اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ 

2-کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

3-بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے  ہمدردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4-اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے،جس میں بےجاتکلفات کی وجہ سے اسراف کیا جاتا ہے، حالانکہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔

5-جو لوگ کمیٹی کو چندہ کے طور پر رقم جمع کراتے ہیں تو ان لوگوں کی طرف سے دی گئی رقم کی حیثیت امانت یا قرض کی ہے، لہذا اِس صورت میں اگر چندہ دینے والے کا انتقال ہوجائے اور اس رقم میں میت کی رقم بھی شامل ہو تو وہ  رقم اس کا ترکہ بن جاتاہےجو چندہ دینے والے (میت)  کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، جب کہ کمیٹی والے اس رقم کو بھی میت کے کھانے پر خرچ کرتے ہیں جو شرعاً جائز نہیں۔

6-اگر چندہ دینے والا صاحبِ نصاب ہو تو اِس رقم پر زکوۃ کی ادائیگی بھی لازم ہوگی حالانکہ کمیٹی میں کوئی شخص بھی اپنی جمع کرائی گئی رقم سے  زکوۃ ادا نہیں کرتا، جو کہ شرعاً درست نہیں ہے۔

7-نیز کمیٹی  میں اس شخص کی رقم بھی شامل ہوتی ہے جس کے گھر فوتگی ہوئی ہے، اور اسی رقم سے میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جاتاہے،حالانکہ شریعت نے یہ ذمہ داری میت کے اہل خانہ پر نہیں، بلکہ پڑوس اور اہل محلہ پر ڈال دی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ بالا مفاسد و وجوہات کے بنیاد پر میت   کمیٹی بنانا  شرعاً درست نہیں،اس کمیٹی کی جگہبہتر یہی ہے کہ کمیٹی کے قیام کے بغیر میت کےپڑوسی اہل محلہ میت کے اہل خانہ اور دور دراز سے آنے والے لوگوں کے کھانے کا انتظام  کرلیا کریں،اور  اسراف اور بےاحتیاطی اور بے ادبی  یا کھانا کے ضیاع سے بچیں،اور میت کے کفن دفن کا خرچہ اس کے ذاتی ترکہ  سےکیاجائےیا قریبی رشتہ دار اپنی خوشی سے اپنے مال سے انتظام کر لیں ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عبد الله بن جعفر، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "اصنعوا لأل جعفر طعاما، فإنه قد أتاهم أمر يشغلهم".

(كتاب الجنائز، باب صنعة الطعام لأهل الميت، ج:5، ص:52، رقم:3132، ط:دار الرسالة)

ترجمہ:"   حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ  نبی کریمﷺ نے ارشاد  فرمایا تم جعفر کے گھروالوں  کے لئے کھاناتیارکرو، ان کوایسامعاملہ درپیش ہے کہ جس نے ان کو مشغول کر رکھا ہے ۔"

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام، كذا في التبيين، ولا يباح ‌اتخاذ ‌الضيافة عند ثلاثة أيام، كذا في التتارخانية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز،مسائل التعزیة، ج:1، ص:167، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(یبدأ من ترکة المیت  بتجهیزه)  یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنة أو قدر ما کان یلبسه في حیاته".

( کتاب الفرائض،ج: 7،ص:759،ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم".

وفی حاشیتہ لابن عابدین:

"(قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی".

وفی الدرالمختار:

"(وإن لم یکن ثمة من تجب علیه نفقته ففي بیت المال فإن لم یکن ) بیت المال معموراً أو منتظماً (فعلی المسلمین تکفینه ) فإن لم یقدروا سألوا الناس له ثوباً فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن به مثله وإلا تصدق به، مجتبی. وظاهره أنه لایجب علیهم إلا سؤال کفن الضرورة لا الکفایة ولو کان في مکان لیس فیه إلا واحد وذلک الواحد لیس له إلا ثوب لایلزمه تکفینه به.

وفی حاشیتہ لابن عابدین:

(قوله:فإن لم یکن بیت المال معموراً ) أی بأن لم یکن فیه شيء أو منتظماً أي مستقیمًا بأن کان عامراً ولایصرف مصارفه ط، (قوله: فعلی المسلمین ) أي العالمین به وهو فرض کفایة یأثم بترکه جمیع من علم به، ط ، (قوله: فإن لم یقدروا ) أي من علم منهم بأن کانوا فقراء، (قوله: وإلا کفن به مثله ) هذا لم یذکره في المجتبی، بل زاده علیه في البحر عن التنجیس و الواقعات، قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهدایة: فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبه یرد علیه وإلا یصرف إلى کفن فقیر آخر أو یتصدق به".

وفیہ ایضاً:

"(واختلف في الزوج والفتوی علی وجوب کفنها علیه ) عند الثاني ( وإن ترکت مالاً) خانیة، ورجحه في البحر بأنه الظاهر؛ لأنه ککسوتها".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:2،ص:205-206،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:2،ص:240،ط:سعید)

وفيه ايضا:

"مطلب في کراهة الضیافة من أهل المیت وقال أیضاً ویکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهه بدعة مستقبحة، وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة الخ".

 (کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:2،ص:240،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری وسمي القمار قماراً؛ لأن کلَّ واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذهب ماله إلی صاحبه، ویجوز أن یستفید مال صاحبه وهو حرام بالنص".

( کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،ج:6،ص:404،ط:سعید)

مسنداحمد میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".

( رقم الحدیث:20714،ج:5،ص:72،ط:مؤسس قرطبة القاهرة)

فقط والله تعالى أعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144504101245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں