بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماتم کرنے اور اسے دیکھنے کا حکم


سوال

ماتم کرنا اور دیکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔

(سورۃ البقرۃ: 153،154)

اسی  طرح   قرآن  مجید  میں ایمان والوں کی صفت یوں بیان ہوئی:

ترجمہ: اور خوش خبری دیجیے صبر کرنے والوں کو جب ان پر کوئی مصبت پڑے تو کہیں:  ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے،  یہی ہے وہ لوگ  جن پر ان کے رب کی خصوصی عنایات ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔

(سورہ بقرہ:156،157) 

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  بھی خلاف  ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دیے گئے احکام کے صریح خلاف ہے۔

بصورتِ  مسئولہ رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر سے اس غم کا اظہار کرنا، ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،  چنانچہ حضرت  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

نیز  جس طرح ماتم کرنا اور اس میں شریک ہونا  گناہ اور ناجائز ہے، اسی طرح اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔

تحفة الأحوذي لمحمد المباركفوري میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144201200915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں