بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماتم کرنے کا حکم


سوال

کیا قرآن میں ماتم کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قران مجید میں ماتم کرنے کا حکم نہیں ہے،البتہ  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ."

(سورۃ البقرۃ: 153،154)

ترجمہ:

"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو، بلا شبہ اللہ تعالی  صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ،اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ،ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ(معمولی مردوں کی طرح)مردے ہیں،بلکہ وہ تو (ایک ممتاز ) حیات کے ساتھ زندہ ہیں،لیکن تم (ان حواس سے اس حیات کا ) ادراک نہیں کرسکتے۔"

(بیان القران، ج:1، ص:108، ط:مکتبہ رحمانیہ)

اسی  طرح   قرآن  مجید  میں ایمان والوں کی صفت یوں بیان ہوئی:

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ  الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

(سورہ بقرہ:156،157) 

ترجمہ: 

"اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیئے جس کی یہ عادت ہےکہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو مع مال اور اولاد حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب دنیا سےاللہ کے پاس جانے والے ہیں۔ان لوگوں پر (جدا جدا ) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بالاشتراک) عام رحمت ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقتِ حال تک) رسائی ہوگئی۔"

(بیان القران، ج:1، ص:108، ط:مکتبہ رحمانیہ)

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  بھی خلاف  ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دیے گئے احکام کے صریح خلاف ہے۔

رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر  اس غم کا اظہار کرنا، ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"عن مسروق، عن عبد الله رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية."

ترجمہ:

"جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

(صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ليس منا من ضرب الخدود، ج:1، :436، رقم:1235، ط:دار ابن كثير۔دمشق)

نیز  جس طرح ماتم کرنا اور اس میں شریک ہونا  گناہ اور ناجائز ہے، اسی طرح اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ " ماتم"  قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، قرآن کریم میں اس  کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

تحفة الأحوذی لمحمد المباركفوری "میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني" میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں