بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مطاف میں جانے کے لیے احرام باندھنا


سوال

موجودہ صورت حال میں مسجد حرام میں مطاف میں اترنے کے لئے سعودی حکومت کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ صرف احرام والوں کو نیچے مطاف میں اتر کر عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ بغیر احرام کے سادہ کپڑوں میں مطاف کے گراؤنڈ میں بالکل نہیں جاسکتے۔ اگر نفل طواف سادہ کپڑوں میں کرنا ہو تو اوپر والے منزلہ ہی سے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت لمبی چکر لگانا پڑتا ہے۔ جوکہ بہت زیادہ باعث مشقت ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص کعبہ کے قریب جاکر نفل طواف کرنے کی غرض سے بغیر عمرہ کی نیت کئے صرف احرام کے چادر اوڑھ کر محرمین کی شکل و صورت اپنائے اور ان کے ساتھ مطاف میں اتر جائے تو از روئے شریعت اس کا یہ عمل جائز ہوگا یا نہیں؟ اس طرح کرنا دھوکہ دہی میں شامل ہے یا نہیں؟ نیز اس طرح صورتاً احرام کے چادر اوڑھنے کی حالت میں ننگے سر نماز پڑھنا اور ننگے سر طواف وغیرہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب حکومت کی طرف سے صرف احرام والے حضرات کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنے کی اجازت ہے،اس کے علاوہ لوگوں  کو بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کرنے کی اجازت نہیں ،تو صرف اس وجہ سے بغیرنیتِ احرام کے چادریں پہنناکہ بیت اللہ کے قریب  نفلی طواف کرسکوں ،خلافِ واقع اور حقیقت کے برخلاف ہے؛لہذا اس عمل سے اجتناب کیاجائے،لیکن اگر کوئی شخص صرف احرام کی چادرپہن کر طواف کرے گا تو طواف ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهو لغة: مصدر أحرم إذا دخل في حرمة لا تنتهك ورجل حرام أي محرم كذا في الصحاح، وشرعا: الدخول في حرمات مخصوصة أي التزامها غير أنه لا يتحقق شرعا إلا بالنية مع الذكر أو الخصوصية، كذا في الفتح فهما شرطان في تحققه لا جزء ماهيته كما توهمه في البحر حيث عرفه بنية النسك من الحج والعمرة من الذكر أو الخصوصية نهر والمراد بالذكر التلبية ونحوها، وبالخصوصية ما يقوم مقامها من سوق الهدي أو تقليد البدن، فلا بد من التلبية أو ما يقوم مقامها فلو نوى ولم يلب أو بالعكس لا يصير محرما."

(کتاب الحج،فصل فی الاحرام وصفۃ المفرد،ج:۲،ص:۴۷۹،سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر، ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل،  إلا إذا احتاجت لتكوير أو عمل كثير".

(قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة، وليس معناه الإستخفاف بها والإحتقار؛ لأنه كفر، شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز. مطلب في الخشوع، (قوله: ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لايفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك؛ لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ"

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃومایکرہ فیہا،ج:۱،ص:۶۴۱،سعید)

فتاوی رشیدیہ میں ہے :

"سر  برہنہ  ہونا احرام  میں  ثابت ہے ، سوائے احرام کے بھی احیاناً ہوگئے ہیں ، نہ کہ دائماً چلتے پھرتے تھے۔" 

(حرمت اور جواز کے مسائل ،ص:۵۹۰،عالمی مجلس تحفظ اسلام )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں