بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستورات طالبات کا مدرسہ کے اساتذہ کی نگرانی میں تبلیغ میں جانے کا حکم


سوال

مدرسہ کی طالبات کا بغیر محارم کے اجتماعی طور پر جامعہ کے ذمہ دار اساتذہ کے ساتھ دینی ضرورت کے لیے(جیسے کہ سہ روزہ اصلاحی اجتماع جس کا انعقاد خواتین اور مردوں کے لیے ہو )شرعی سفر کرنا والدین کی رضاکے ساتھ کیسا ہے؟ جب کہ ان طالبات کے ساتھ وہی پڑھانے والی استانیاں اور جامعہ کے مہتمم حضرات اود دیگر ساری طالبات ہوں، جن  کے ساتھ بچیوں کے والدین نے اپنے گھروں سے دور شرعی سفر کر کے حصولِ تعلیم کے لیے ان ہی جامعات میں بطور مستقل رہائش کےلمبی مدت تک بھی  ٹھہرایا ہوتا ہے۔

جواب

ازرُوئے شرع اصولی طور پر عورت کا گھر سے باہر نکلنا بذات خود پسندیدہ ہی نہیں ہے جیسے  کہ حدیث شریف میں ہے:

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ آپﷺ  نے فرمایا: ’’عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے(اور راستہ پر گزرتے ہوئے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتاہے)۔"

( سنن الترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات، رقم الحدیث:1172، ج:3، ص:467، ط:مطبعۃ مصطفی الحلبی)

نیز  رسول اللہ ﷺ نے خواتین کی مسجد میں نماز پڑھنے  سے متعلق فرمایا: کہ ان کے گھر ان کے  لیے بہترہیں،  اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ عورت کا گھر سے نکل کر مسجدمیں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،   نیز  سرپرست ہونے کی صورت میں نان نفقہ بھی سرپرست کے ذمہ لازم کیاگیاہے،   اور خاص کر موجودہ ماحول میں عورت کے لیے گھر سے  باہر نکلنے  میں بہت سے  مفاسد وخرابیاں  اور احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے،  اس وجہ سے بلاضرورتِ  شدیدہ عورت کا گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔  البتہ  فقہائے کرام نے شرعی (جیسے حج وعمرہ) و طبعی  ضرورتوں  (جیسے مریض کی عیادت، ماں باپ کی زیارت، نان نفقہ کے  لیے نکلنا جب سرپرست نہ ہو اور نفقے کا کوئی انتظام نہ ہو)   کے  لیے (جب کہ ضرورت ایسی ہو کہ بغیر باہر نکلے مصیبت ٹلنے یا کام پورا ہونے کی کوئی سبیل نہ ہو)  عورت کو  گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ  عورت مکمل پردے کی حالت میں ہو، اور چادر یا برقع بھی ایسا ہو جو پورے بدن کو چھپاتا ہو، دیدہ زیب ونقش ونگار والا، زرق برق، نظروں کو خِیرہ کردینے والا نہ ہو نیز زیب وزینت کرکےخوشبو لگاکر باہر نہ نکلے،  اور سفر شرعی مسافت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو محرم بھی ساتھ ہو، اور  مردوں سے اختلاط بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ اگر محرم ساتھ نہ ہو تو عورت کو  حج پر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

بصورتِ مسئولہ مدرسے  کی طالبات کا دینی  ضرورت (سہ روزہ اجتماع وغیرہ) کے  لیے نکلنا  چوں کہ کوئی ایسی شرعی وطبعی ضرورت نہیں ہے کہ جو مدرسے میں رہتے ہوئے پوری نہ ہوسکے،  بلکہ مذکورہ  ضرورت  (اصلاح وتربیت)  مدرسے میں رہتے ہوئے طالبات کی عمومی  تعلیم کے ساتھ  بھی پوری کی جاسکتی ہے،  یعنی  ان کی اصلاح اور دینی تربیت کے لیے مدرسہ ہی میں  استانیوں  کی طرف سے وعظ و نصیحت کی مجلس رکھی  جا سکتی ہے۔ اور بوقتِ ضرورت اپنے علاقے میں کسی گھر میں خواتین کا باپردہ اجتماع رکھ کر کسی مستند عالم کا بیان وغیرہ رکھ کر بھی یہ ضرورت پوری ہوسکتی ہے، اور ایسا کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے، لہذا مدرسے  کی طالبات کا مدرسے  سے دین کی ضرورت  (مثلاً تبلیغ) کے  لیے نکلنا خاص کر بغیر محارم کے  جائز  ہی نہیں ہے۔

ملحوظ رہے کہ لڑکیوں کے رہائشی مدارس  کا قیام  (خواہ ان میں پردے کا اہتمام کیا جائے) موجودہ پرفتن دور میں کئی مفاسد اور فتنوں کا سبب بن سکتا ہے؛ لہٰذا  بچیوں اور خواتین کی بنیادی دینی تعلیم کے  لیے علاقائی سطح پر غیر رہائشی مدارس میں  ہی پردہ و ستر کے اَحکام کی مکمل رعایت رکھ کر ضروری تعلیم کا  انتظام کیا جائے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ مستورات کو تبلیغی جماعت میں بھیجنے کے سلسلے میں علمائے عصر کے دونظریے  اور دو رائے ہیں، بعض علماء و اکابر نے تبلیغی اہمیت اور احساس کے باوجود مفاسد کے غالب ہونے کے پہلوکو مد نظر رکھ کر اجازت نہیں دی، اور بعض دوسرے علمائے کرام نے عصرحاضر کے لوگوں میں دین سے غفلت، اسلامی تہذیب سے بعد و دوری، علوم اسلامیہ کی تحصیل و ترویج سے سستی و بیزاری وغیرہ دیگر حقائق نیز تبلیغی جماعت کے فوائد کے پیشِ نظر   چند اہم و ضروری شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی۔ دارالعلوم دیوبند اور  ہماری جامعہ ( یعنی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علّامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی)  کی رائے احتیاط اور عورتوں کی عصمت وتحفظ کے پیش نظر عدمِ جواز کی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں