بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانے سے متعلق علماء کا اختلاف کیوں؟


سوال

 آپ ہی کی ویب سائٹ پر آپ کے دارالافتاء کے مفتی انعام الحق صاحب قاسمی نے سفر کے مسائل جلد ۱ کتاب میں عورت کا تبلیغ جماعت میں جانا جائز بتایا ہے اور بہت سارے دارالعلوم مستورات کی جماعت کے قائل ہیں جس میں دارالعلوم کراچی بھی ہے۔ تو یہ اختلاف کیوں ہے۔ کیا مستورات کی جماعت کے قائل فتاوی کو ماننے کی گنجائش ہے۔ کیا ان فتاوی پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔

جواب

مفتی محمد انعام الحق قاسمی صاحب کی کتاب "سفر کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا " کا اقتباس درج ذیل ہے:

"عورتوں کے لیے تبلیغی سفر کرنا

عورتوں کے لیے گھر میں رہنے میں عافیت ہے،اور علاقے میں کسی گھر میں جمع ہوکر کسی عالم دین کو بلاکر دین کا علم حاصل کرنا سنت کے مطابق ہے۔

اور اگر کسی کی حق تلفی نہ ہو اور بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں خلل نہ ہو تو دور دراز مقام پر محرم یا شوہر کے ساتھ شریعت کی حدود کی پابندی کرتے ہوئے جانے کی گنجائش ہے۔

لیکن اس کو مستقل عادت بنالینا خطرات سے خالی نہیں ہے۔"(ج1،ص408)"۔

اول تو اس اقتباس سے عورت کے لیے محرم یا شوہر کے ساتھ نفس سفر کی  گنجائش تو معلوم ہوتی ہے خواہ وہ عام سفر ہو یا کسی دینی خدمت کے لیے سفر پر جانا ہو،اور یہی عام حکم ہے کہ عورت اپنے محرم یا شوہر کے ساتھ سفر پر جاسکتی ہے،لیکن عورت کا تبلیغ دین کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مستقل تبلیغی اسفار کی عادت بنالینا،اس کے متعلق کتاب کی عبارت میں کہیں  وضاحت نہیں ہے،بلکہ اس کی عادت بنالینے سےخطرات کا  اندیشہ تحریر کیا ہے۔

دوم یہ ہےکہ  ایک ہے نفس مسئلہ کا بیان اور ایک ہے اس کافتوی دینا،دونوں میں فرق ہے،عموما فتوی میں صرف نفس مسئلہ کے علاوہ دیگر دینی مصالح کی رعایت بھی رکھی جاتی ہے،اسی کے مطابق جواز یا عدم جواز کا حکم لگایا جاتا ہے،مستورات کو تبلیغی اسفار کی اجازت دینے میں بھی نفس مسئلہ کے علاوہ دیگر دینی مصالح ومفاسد کو مدنظر رکھتے ہوئے،دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم اور دار الافتاء بنوری ٹاؤن کا فتوی عدم جواز کا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں