بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسروقہ شے کی رقم زکوۃ کی مد میں دینا


سوال

میں نے چار سال پہلے اپنے boss سے (7200000) بہتر لاکھ روپے کا مال (لوہا)  چوری کیا، پھر میں نے وہی مال( 4800000 )اڑتالیس لاکھ روپے کا فروخت کر لیا اور اس سے ایک مکان خریدا، اب میرا  boss کیا مجھے یہی (7200000) لاکھ روپے زکوۃ میں دے سکتا ہے یا نہیں؟  یا  ان پیسوں سے خریدا ہوا  یہ گھر فروخت کر وں   اس سے    قرضہ ادا  کرنے کے لیے؟

وضاحت: میرا boss یہی مال زکو ۃ میں دینا چاہتا ہے، اور میری ملکیت (سرمایہ) صرف یہی پیسوں سے خریدا ہوا مکان ہے جس کی مالیت اب 53 لاکھ ہے، اور نقد پیسے میرے پاس نہیں ہے، میں مقر وض ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی کی کوئی چیز کو اس کی اجازت کے بغیر  غلط طریقہ سے (چوری کرنا)لینا ،پھر اس میں تصرف کرنا قطعا نا جائز اور حرام ہے اور  چوری کے بعد اس چیز کو بیچنےسے ، یا اس میں  کوئی اور تصرف کرنے سے  وہ چیز مالک کی ملکیت سے نہیں  نکلتی، بلکہ باقاعدہ اسی کی ملکیت  میں  رہتی ہے جس كا  مالک کو واپس کرنا لازمی اور ضروری هوتا ہے،  اس لیے اگر وہ  چیز موجود ہو اور کوئی تصرف نہ کیا ہو    تو اسی  کو بعینہ واپس کرنا لازمی ہوگا، لیکن تصرف کرنے کے بعد    دیکھا جائے گا اگر وہ چیز مثلی ہو تو اس کا مثل اور اگر مثلی نہ ہو،  تو اس کی قیمت  مالک کو واپس کرنا ضروری هوتا ہے، تاہم چیز کا مالک اگر چاہے تو اس شخص سے اپنا حق  شرعی طور پر ساقط کرکے  اس کو بری الذمہ کرسکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب سائل نے چوری کردہ   مال بیچ کر اس کی رقم سے  گھر خرید لیا، تو سائل پر واجب ہے کہ  مالک کو  لوہے کی قیمت جو کہ (7200000)لاکھ ہے  واپس کرے،البتہ  اگر سائل مستحق زکوۃ ہے اور مالک  (سائل کے بقول)اس  رقم کو زکوۃ  میں منہا کرنا چاہے تو یہ درست نہیں ہے،کیوں کہ زکوٰۃ کی صحت کے لیےضروری ہے کہ مال علیحدہ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت ہو، یا غریب مستحق زکوٰۃ شخص کو رقم دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت  ہو، البتہ مالک ( معطی زکوٰۃ  )اس  شخص کی ملکیت میں زکوٰۃ کی نیت سے اتنی  رقم دے کر اس سے اس پر واجب الادا قرض وصول كر لے تو  یہ جائز ہوگا، اس سے معطی زکوٰۃ کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجاتی ہے اورچور  سے بھی  لوہے  کی مالیت وصول   ہوجائے  گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والثاني وجوب رد عين المسروق على صاحبه إذا كان قائما بعينه، وجملة الكلام فيه: أن المسروق في يد السارق لا يخلو إما أن كان على حاله لم يتغير، وإما أن أحدث السارق فيه حدثا، فإن كان على حاله رده على المالك؛ لما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «على اليد ما أخذت حتى ترده» ...وكذلك إن كان السارق قد ملك المسروق رجلا ببيع أو هبة، أو صدقة، أو تزوج امرأة عليه، أو كان السارق امرأته فاختلعت من نفسها به،وهو قائم في يد المالك فلصاحبه أن يأخذه؛ لأنه ملكه، إذ السرقة لا توجب زوال الملك عن العين المسروقة، فكان تمليك السارق باطلا، ويرجع المشتري على السارق بالثمن الذي اشتراه به؛ لما مر."

[كتاب السرقة، فصل في حكم السرقة  ، ج:7، ص:89، ط:دار الكتب العلمية]

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحكام ميں ہے(المادة 51) :

"(‌الساقط ‌لا ‌يعود)يعني إذا أسقط شخص حقا من الحقوق التي يجوز له إسقاطها يسقط ذلك الحق وبعد إسقاطه لا يعود."

[المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية ج:1، ص: 54] 

الدر المختار میں ہے:

"(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية."

[کتاب الزکاۃ، ج:2، ص:268ط: سعید]

الدر  مع الرد  میں ہے:

"واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز، وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه"(قوله واعلم إلخ) المراد بالدين ما كان ثابتا في الذمة من مال الزكاة وبالعين ما كان قائما في ملكه من نقود وعروض، والقسمة رباعية... وفي صورتين لا يجوز،الأولى أداء الدين عن العين كجعله ما في ذمة مديونه زكاة لماله الحاضر."

[كتاب الزكاة، ج:2 ص:271ط:سعيد]

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144308101727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں