بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسوڑھوں سے مسلسل خون آنے کی صورت میں وضو اور نماز کا حکم


سوال

مسوڑھوں سے مسلسل خون آنے کی صورت میں وضو اور نماز کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں اگر مسوڑھوں سے خون اتنا نکلے کہ تھوک کے برابر ہو یا تھوک پر غالب ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں ،خون غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تھوک کا رنگ سرخی مائل ہوجائے۔اور اگر کسی کے مسوڑھوں سے مسلسل خون آتا رہتا ہے اور اتنی دیر بھی نہیں رکتا جس میں   فرض نماز ادا کی جاسکے  تو ایسا شخص  شرعی معذور ہے، اوریہ اسی حالت میں وضو کرکے نماز ادا کر سکتا ہے، چاہے نماز ادا کرنے کے دوران بھی خون نکلتا ہو اور ایسی صورت میں نماز اور وضو فاسد نہیں ہوگا ،البتہ جس نماز کے لیے  وضو کیا اس نماز کا  وقت نکل جانے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہے، یعنی اتنا وقت مل جاتا ہے کہ جس میں خون آنا بند ہو جائےاور فرض نماز ادا کر سکے تو ایسی صورت میں وہ  شرعی معذور نہیں ہیں، لہٰذا جس وقت خون نہ آرہاہو، اس وقت ہی    نماز پڑھنا ضروری ہو گا۔

اگر مسواک کرنے، انگلی ملنے یا کلی کرنے سے خون جاری ہوتا ہو تو وضو کے دوران اس  کو ترک کردیں، اگر مسوڑھوں اور دانتوں کو پانی لگانے سے ہی خون جاری ہوجاتاہو تو وضو میں کلی نہ کریں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) ينقضه (دم) مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكما للغالب (أو ساواه) احتياطا (لا) ينقضه (المغلوب بالبزاق) والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق

(قوله: غلب على بزاق) بالزاي والسين والصاد كما في شرح المنية، وعلامة كون الدم غالبا أو مساويا أن يكون البزاق أحمر، وعلامة كونه مغلوبا أن يكون أصفر بحر ط".

(کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج:1،ص:139،سعید)

وفيه أيضاّ:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم".

(کتاب الطہارۃ،مطلب فی احکام المعذور،ج:1،ص:305،سعید)

وفيه أيضاّ:

"(قوله: وهما سنتان مؤكدتان) فلو تركهما أثم ‌على ‌الصحيح ‌سراج. قال في الحلية: لعله محمول على ما إذا جعل الترك عادة له من غير عذر كما قالوا مثله في ترك التثليث كما يأتي".

(کتاب الطہارۃ،ج:1،ص:116،سعید)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"سوال:ایک شخص اگر کلی  کرتا ہے تو اس کے منہ سے خون نکلتا ہے ،کچھ عرصہ کے بعد بند ہوجاتا ہے ،تب وہ وضو ختم کرتا ہے ،چوں کہ کلی کرنے سے وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہے ؛اس لیے اگر وہ کلی نہ کرے اور نماز پڑھے تو درست ہے یا نہیں ؟

جواب : ایسی حالت  میں کلی نا کرنا درست ہے ،بدون کلی کے نماز صحیح ہے ۔فقط".

(کتاب الطہارۃ،ج:1،ص:106،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101855

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں