بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسنون اعتکاف کے دوران غسلِ تبرید کا حکم


سوال

سنت اعتکاف میں اگر ٹھنڈک کے لیے غسل کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج کی بات ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سنت اعتکاف کے دوران معتکف کے لیے واجب غسل کے علاوہ گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر جانا جائزنہیں ، اگر معتکف ٹھنڈک کے لیے غسل کرنے چلا گیا تو مسجد سے باہر نکلتے ہی اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور ایک دن ایک رات اعتکاف کی قضاروزہ کے ساتھ کرنا لازم ہوگا۔ لہذا اعتکاف کے دوران محض گرمی کے سبب غسل کے لیے مسجد سے باہر جانے سے اجتناب کرے، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ اگر قضائے حاجت (پاخانہ، پیشاب) کے لیے جائے اور بیت الخلاء میں نہانے کا انتظام بھی ہو تو بول و براز سے فارغ ہوکر جلدی جلدی اپنے اوپر پانی ڈال دے یا شاور لے لے یا کسی غیر معتکف سے تولیہ وغیرہ گیلا کروا کر اپنے بدن پر مل لے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ‌لأنه ‌محل ‌له) أي مسجد الجمعة محل للاعتكاف وفيه إشارة إلى الفرق بين هذا وبين ما لو خرج لبول أو غائط ودخل منزله ومكث فيه حيث يفسد كما مر وفي البدائع وما روي عنه صلى الله عليه وسلم من الرخصة في عيادة المريض وصلاة الجنازة فقد قال أبو يوسف: ذلك محمول على اعتكاف التطوع ويجوز حمل الرخصة على ما لو خرج لوجه مباح كحاجة الإنسان أو الجمعة وعاد مريضا أو صلى على جنازة من غير أن يخرج لذلك قصدا وذلك جائز اهـ وبه علم أنه بعد الخروج لوجه مباح إنما يضر المكث لو في غير مسجد لغير عيادة (قوله لمخالفة ما التزمه)... وعدم جواز الخروج منه بلا عذر لا لتعينه بل لأن الخروج مضاد لحقيقة الاعتكاف الذي هو اللبث والإقامة."

(‌‌‌‌كتاب الصوم، باب الاعتكاف: 2/ 446، ط: سعید)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"قال الحنفية... وحرم على المعتكف اعتكافا واجبا الخروج إلا لعذر شرعي كأداء صلاة الجمعة والعيدين، فيخرج في وقت يمكنه إدراكها مع صلاة سنة الجمعة قبلها، ثم يعود، وإن أتم اعتكافه في الجامع صح وكره. أو لحاجة طبيعية: كالبول والغائط وإزالة النجاسة، والاغتسال من جنابة باحتلام؛ لأنه عليه الصلاة والسلام كان لا يخرج من معتكفه إلا لحاجة."

(‌‌القسم الأول: العبادات، ‌‌الباب الثالث: الصيام والاعتكاف، ‌‌الفصل الثاني: الاعتكاف، ‌‌المبحث الرابع: ما يلزم المعتكف وما يجوز له: 2/ 621، 622، ط: الحقانیة پشاور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں