بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی بالوں پر مسح کرنے کا حکم


سوال

اگر وگ اتار کر سر کے پچھلے حصے اور اطراف میں مسح کیا جائے ،تو کیا یہ مسح کرنا درست ہے۔؟

جواب

واضح رہے کہ وضوء میں چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے  اور پورے سر کا مسح کرنا مسنون ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں وگ اتار کرسر کا مسح کررہا ہے تو پیچھے یا اطراف میں مسح کرنے کے بجائے سنت کے مطابق مسح کرے اور پورے سر کا مسح کرے،اور اگر تارنے میں دشواری ہو تو  اگر سر کے پچھلے حصے میں مسح کیا تو مسح  فرض  ادا ہوجائے گاسنت ادا نہیں ہوگی،البتہ مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو گیلا کرنے کے بعد دونوں ہتھیلیوں کو انگلیوں سمیت سر کے اگلے حصے پر رکھ کر آگے سے پیچھے لے جائے اور پیچھے سے آگے لے آئے، اور ان ہی ہاتھوں سے (اگر خشک نہ ہوگئے ہوں اور اگر خشک ہوگئے ہوں تو دوسری دفعہ پانی میں تر کر کے)  کانوں کا مسح اس طرح کرے کہ شہادت کی دونوں انگلیوں سے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح اور دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے باہر کے حصہ کا مسح کرے،جب کہ فرض غسل کے لیے چپکائے ہوئے وگ کو اتار کر پورے سر کا دھونا لازم ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"والمسنون في كيفية المسح: أن يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه آخذاً إلى قفاه على وجه يستوعب، ثم يمسح أذنيه على ما يذكره، وأما مجافاة السباحتين مطلقاً ؛ ليمسح بهما الأذنين والكفين في الإدبار ؛ ليرجع بهما على الفودين، فلا أصلَ له في السنة."

(كتاب الطهارات، ج:1، ص:20، ط:دار الفكر)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

 "و" يسن "استيعاب الرأس بالمسح" كما فعله النبي صلى الله عليه وسلم "مرة"

قوله: "مرة" قال في الهداية وما يروي من التثليث محمول عليه بماء واحد وهو مشروع على ما روى الحسن عن أبي حنيفة رضي الله عنه ورجح في البرهان رواية الأفراد على التثليث وله كيفيات متعددة وردت بها الأحاديث ذكر نبذة منها في البناية واختار بعض أصحابنا رواية عبد الله بن زيد بن عاصم المتفق عليها وهي بمعنى رواية محمد في موطئه عن مالك مسح من مقدم رأسه حتى ذهب بهما إلى قفاه ثم ردهما إلى المكان الذي منه بدأ ومن ثم قال الزيلعي والأظهر أنه يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه ويمدهما إلى قفاه على وجه مستوعب جميع الرأس ثم يمسح أذنيه بإصبعيه اهـ واختاره قاضيخان وقال الزاهدي هكذا روى عن أبي حنيفة ومحمد اهـ قال في الخانية و لايكون الماء بهذا مستعملًا ضرورة إقامة السنة اهـ وما في الخلاصة وغيرها من أنه يضع على مقدم رأسه من كل يد ثلاثة أصابع ويمسك إبهاميه وسبابتيه ويجافي بطن كفيه ثم يضع كفيه على جانبي رأسه ففيه تكلف ومشقة كما في الخانية بل قال الكمال لا أصل له في السنة."

(كتاب الطهارة، فصل في سنن الوضوء، ص:72، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں