اگر کوئی امام نماز میں مسنون مقدار سے زیادہ قرأت اس لیے کرے تا کہ اس وجہ سے دیگر لوگوں کو بھی رکعت مل جائے تو کیا امام کا یہ فعل درست ہے؟
صورت مسئولہ میں امام کو مسنون قراء ت کے موافق ہی نماز میں قراءت کرنی چاہیے ، مسنون مقدار سے زیادہ قراءت کرنے کو فقہائے کرام ؒ نے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے ۔ چاہے مقتدی راضی ہوں یا نہ ہوں۔ نیزمقتدیوں کو جماعت کی نماز کے وقت مقررہ پر مسجد میں پہنچنا چاہیے ، نہ یہ کہ امام لوگوں کی وجہ سے مسنون قراء ت سے زیادہ کرکے ان کا انتظار کرے۔باقی مسنون قراءت کی مقدار میں چوں کہ وسعت ہے ، مثلاً طوال مفصل سورہ حجرات سے سورہ بروج تک ہے ، ان میں سے کوئی بھی سورۃ پڑھے یا ان سورتوں جیسی سورۃ یا آیتیں کہیں اور جگہ سے پڑھے تو یہ چوں کہ مسنون قراءت سے زائد نہیں بلکہ مسنون ہی ہے ، اس لیے یہ عمل مکروہ شمار نہیں ہوگا۔البتہ پھر بھی امام کے لیے مناسب ہے کہ نماز میں (شروع سے )شامل ہونے والے نمازیوں کا لحاظ رکھ کر مسنون قراءت کا انتخاب کرے نہ کہ دوسروں (بعد میں آنے والوں )کا۔
البحرالرائق میں ہے :
’’وذكره في فتح القدير بحثا وعلل له بأنه - صلى الله عليه وسلم - نهى عن التطويل وكانت قراءته هي المسنونة فلا بد من كون ما نهى عنه غير ما كان دأبه إلا لضرورة كما روي عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه «قرأ بالمعوذتين في الفجر فلما فرغ قيل له أوجزت قال سمعت بكاء صبي فخشيت أن تفتتن أمه» وفي منية المصلي ويكره للإمام أن يعجلهم عن إكمال السنة، والظاهر أنها في تطويل الصلاة كراهة تحريم للأمر بالتخفيف وهو للوجوب إلا لصارف ولإدخال الضرر على الغير وأطلقه فشمل ما إذا كان القوم يحصون أو لا رضوا بالتطويل أو لا لإطلاق الحديث، وأطلق في التطويل فشمل إطالة القراءة أو الركوع أو السجود أو الأدعية واختار الفقيه أبو الليث أنه يطيل الركوع لإدراك الجائي إذا لم يعرفه، فإن عرفه فلا وأبو حنيفة منع منه مطلقا؛ لأنه شرك أي رياء‘‘۔
(ج:1،ص:372،ط:دارالکتاب الاسلامی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100035
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن