بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی پلکیں لگوانا


سوال

کیا  مصنوعی پلکیں لگوانے  کا بھی وہی حکم ہے جو مصنوعی بالوں کے استعمال کا ہے؟ نیز آج کل مصنوعی پلکیں مستقل لگوائی جاتی ہیں جو بالکل حقیقی پلکوں کی طرح معلوم ہوتیں ہیں، ان کا کیا حکم ہو گا؟

جواب

مصنوعی پلکیں لگانے کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے، اور انسانی بال لگوانے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے، اس طرح خنزیر کی بالوں کی بنی ہوئی پلکیں لگانا بھی جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ عورت کے لیے  شوہر کی خاطر  تزیین و  آرائش کے لیے مصنوعی پلکیں  لگانے کی  گنجائش ہے، البتہ وضو کے لیے پلکیں نکال کر وضو کرنا ضروری ہوگا،  لیکن  محض دکھلاوے کے لیے یا دھوکا دینے کے لیے یا خلافِ حقیقت بات کا اظہار کے لیے  مصنوعی پلکیں لگانا جائز نہیں ہے، نیز مستقل طور پر مصنوعی پلکیں لگانے سے اجتناب کیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372)

"ووصل الشعر بشعر الآدمي  حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة: التي تنتف الشعر من الوجه. والمتنمصة: التي يفعل بها ذلك.
(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر (قوله: «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً.

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں