بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی بالوں پر وضو میں ہاتھ پھیرنے سے مسح ہوجانے کا حکم


سوال

وضو کے فرائض میں سر کامسح کرنا بھی شامل ہے،آج کل بالوں کے گرنے کی وجہ سے لوگ وگ یا مصنوعی بال لگاتے ہیں تو اس صورت میں مصنوعی بالوں پر ہاتھ پھیرنے سے وضو ہوجاتا ہے کہ نہیں؟اور ایسے مصنوعی بال جن کی وجہ سے سر کو دھونے کے بعد بھی خشک رہنے کا اندیشہ ہو تو کیا ایسے بال لگانے کے بعد وضو یا غسل ہوجاتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سر پر لگائے گئے مصنوعی بال  اگر اس طرح ہیں کہ  ان کو سر سے الگ کیا جاسکتا ہو تو  اس صورت میں اگر اس میں پانی گزر کر سرکے اندر  نہیں پہنچ سکتا تو  غسل اور وضو دونوں  میں انہیں اتارنا ہوگا، ورنہ وضو اور غسل دونوں نہیں ہوں گے، اور اگر ان مصنوعی بالوں  کے درمیان سے پانی گزر کر سر تک پہنچ جاتا ہے تو غسلِ واجب  ادا ہو جائے گا بشرطیکہ سر میں بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے،   لیکن وضو کے دوران ان مصنوعی بالوں پر مسح کرنے سے مسح نہیں ہوگا، کیوں کہ ان مصنوعی بالوں کو آسانی سے ہٹایا جا سکتا ہے، البتہ اگر کسی نے سر پر اتنا پانی ڈالا کہ وگ کے اندر کم از کم چوتھائی سر تک پانی پہنچ گیا تو وضو  ہوجائے گا۔ بہرحال وضو  اور فرض غسل میں اسے اتارکر پانی پہنچانے میں ہی احتیاط ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فلو مسح على طرف ذؤابة شدت على رأسه لم يجز"

(كتاب الطهارة، أركان الوضوء، ج:1، ص:99، ط:ایج ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولو ألزقت المرأة رأسها بطيب بحيث لا يصل الماء إلى أصول الشعر وجب عليها إزالته ليصل الماء إلى أصوله كذافي السراج الوهاج".

(کتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل وفيه ثلاثة فصول، الفصل الأول في فرائض الغسل، ج:1، ص:13، ط:مکتبة رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى (ودرن ووسخ) عطف تفسير، وكذا دهن ودسومة، (وتراب) وطين ولو (في ظفر مطلقاً) أي قروياً أو مدنياً في الأصح، بخلاف نحو عجين.(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف، به يفتى. وقيل: إن صلباً منع، وهو الأصح.

 (قوله: ونيم إلخ) ظاهر الصحاح والقاموس أن الونيم مختص بالذباب نوح أفندي، وهذا بالنظر إلى اللغة، وإلا فالمراد هنا ما يشمل البرغوث؛ لأنه أولى بالحكم.

(قوله: لم يصل الماء تحته)؛ لأن الاحتراز عنه غير ممكن، حلية.(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه؛ لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ لكن يرد عليه أن الواجب الغسل، وهو إسالة الماء مع التقاطر، كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة، فالأظهر التعليل بالضرورة، ولكن قديقال أيضاً: إن الضرورة في درن الأنف أشد منها في الحناء والطين؛ لندورهما بالنسبة إليه مع أنه تقدم أنه يجب غسل ما تحته فينبغي عدم الوجوب فيه أيضاً، تأمل."

(كتاب الطهارة، أركان الوضوء، ج:1، ص:154، ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106201221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں