بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ماسک نہ لگانے کی وجہ سے جبراً صدقہ کروانا


سوال

میں ایک اسلامک بنک میں نوکری کرتا ہوں، یہاں کرونا کی وجہ سے ماسک نہ لگانےیا صحیح سے نہ لگانے پر پیسوں کا جرمانہ ہے، اس جرمانے کو صدقے کی مد میں قبول کرتے ہوئے انتظامیہ اسے ایک خیراتی ادارے میں جمع کرا دیتی ہے، دینے والا با دلِ نخواستہ صدقہ  کا فارم بھی بھر دیتا ہے،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کیوں کہ  ہماری ابھی تک کی معلومات کے مطابق پیسوں کا یہ جرمانہ  ربوا  یا سود ہوتا ہے۔ 

جواب

حدیث شریف میں ہے کہ کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص  سے زبردستی اُس کی دلی رضامندی کے بغیر اس کا مال لینا حلال نہیں ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر ماسک نہ  پہننےیا غلط پہننے کی وجہ سے بینک والوں کا جبری  صدقے کے عنوان سے رقم لینا مالی جرمانہ ہے، لہذا بینک والوں کے لیے یہ رقم لینا جائز نہیں، تاہم اسے اصطلاحی معنی  میں"سود "یا "ربا" کہنا درست نہیں، کیوں کہ قرآن کریم میں لفظ ’’ربوا‘‘کے ذریعہ جس چیز کو حرام قراردیاگیاہے اس کا ترجمہ اردومیں ’’سود‘‘سے کیاجاتاہے، مگر’’ربوا‘‘ عام مفہوم رکھتاہے اور مروجہ سود بھی اسی  کی ایک قسم یافرد کی حیثیت میں ہے۔

قرآنِ کریم ،سنتِ نبویہ اور آثارِ صحابہ اوراجماعِ امت نے مالی تبادلے کی صورت میں ایک جانب سے  مشروط طور پر لی جانے والی  زیادتی کو ’’ربوا‘‘قراردیاہے،مروجہ سود’’ایک معین مقدار روپیہ، متعین میعاد کے لیے ادھاردے کر معین شرح کے ساتھ نفع یازیادتی لینے کانام ہے‘‘۔

تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:(جواہرالفقہ،از:مفتی اعظم پاکستان محمدشفیعؒ-4/533،ط:دارالعلوم کراچی)، (اسلام اورجدیدمعاشی مسائل،6/226،ط:ادارہ اسلامیات)،(فتاویٰ بینات،از:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن-4/9،ط:مکتبہ بینات)

حدیث شریف میں آتا ہے:

"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه."

(مشکاة المصابيح، ج:1، ص:255، ط:قدیمی)

البحر الرائق میں ہے:

"و في شرح الآثار : التعزیر بأخذ المال کانت فی ابتداء الإسلام ثم نسخ."

(البحر الرائق، كتاب الحدود، باب التعزیر41/5 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں