بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجدوں میں بچھے قالین اور فوم پر سجدہ کا حکم


سوال

مسجد میں فوم بچھا کر اس پر قالین بچھایا گیا ہے،فوم اور قالین کا سیمپل (sample) ساتھ منسلک ہے،مسجدوں میں اس طرح کے فوم پر قالین بچھانے کا رواج ہوتا جارہاہے،خصوصاً نئی سوسائٹیوں کی مسجد میں،اس فوم پر بچھے ہوئے قالین پر سجدہ کرتے ہوئے

اگر پیشانی کو زور دے کر دبانے میں مبالغہ کیا جائے تو چند دفعہ ایسے کرنے کے بعد پیشانی، بلکہ پورے سر میں درد ہونے لگتاہے،بندہ نے متعدد بار اس کا تجربہ کیا ہے،اور دبانے میں مبالغہ کرنا مخل ـِ  خشوع بھی ہےکہ ساری توجہ سر دبانے کی طرف ہوجاتی ہے،نیز ایسی صفوں کا بھی مساجد میں رواج ہورہا ہے،جن کے نیچے موٹا فوم لگاہوتا ہے،وہاں بھی یہی صورت پیش آتی ہے،اس ساری صورتِ حال کے پیش نظر درج ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:

1۔صورتِ مسئولہ میں سجدہ کرتے ہوئے سر کو معمولی طورپر رکھ دینا کافی ہے یا پیشانی کو سجدے میں زور دے کر دبانے میں مبالغہ  کرنا ضروری ہے؟

2۔دبانے  میںمبالغہ کرنے سے پیشانی،بلکہ پورے سر میں درد ہونے لگے تو اس سے کیا تخفیف آئےگی؟مخل خشوع ہونے کا کیا اثر ہوگا؟

3۔گزشتہ نمازیں جن میں سجدہ کرتے ہوئے سر کو معمولی طور پر قالین پر رکھا ہے،دبانے میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا،وہ نمازیں ادا ہوئیں یا انہیں دہرانا لازم ہے؟ جب کہ گزشتہ کئی سال سے لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی موٹی چیز پر سجدہ کرنے سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ  سجدہ کرتے وقت پیشانی اس چیزپر جم جاتی ہواور اس میں مکمل  ٹھہراؤ آجاتا ہو، یعنی  سجدہ کرنے والا اگر مبالغہ کرے تو پیشانی ٹِک جائے  یعنی دبتی نہ ہو،تو ایسی چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، خواہ قالین ہو یا اس کے نیچے حفاظت کے لیےمعمعولی  فوم وغیرہ بچھایا  گیا ہو۔قالین اور  فوم کا نمونہ جو ساتھ منسلک ہے اس پر سجدہ کرنا جائزہے،کیوں کہ اس پر سجدہ کرنے کی صورت میں پیشانی میں  ٹھہراؤ آجاتا ہے ۔مذکورہ تمہید کے بعد سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔سجدہ کرتے وقت سر کو معمولی طور پر رکھ دینا یعنی اس کو اپنی طبعی حالت پر چھوڑ دینا کافی ہے۔مبالغہ کی ضرورت نہیں  ہے۔

2۔مبالغہ نہ کیا جائے،اور اس طرف زیادہ توجہ بھی نہ کی جائے ،ان شاءاللہ خشوع و خضوع میں بھی خلل نہیں ہو گا۔

3۔گزشہ نمازیں جن میں سر کو معمولی طور پر رکھا گیا یعنی زیادہ مبالغہ نہیں کیا گیا ،وہ نمازیں ادا ہوگئی ہیں ان کے  اعادہ کی  ضرورت نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط سجود) مبتدأ ومضاف إليه (فالقرار) خبر بزيادة الفاء (لجبهة) أي يفترض أن يسجد على ما يجد حجمه بحيث إن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ مما كان عليه حال الوضع، فلا يصح على نحو الأرز والذرة، إلا أن يكون في نحو جوالق، ولا على نحو القطن والثلج والفرش إلا إن وجد ‌حجم ‌الأرض بكبسه."

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فرائض الصلاة،1/ 454،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أما إذا كان) الكور (على رأسه فقط وسجد عليه مقتصرا) أي ولم تصب الأرض جبهته ولا أنفه على القول به (لا) يصح لعدم السجود على محله وبشرط طهارة المكان وأن يجد حجم الأرض والناس عنه غافلون.

(قوله وأن يجد حجم الأرض) تفسيره أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك، فصح على طنفسة وحصير وحنطة وشعير وسرير وعجلة وإن كانت على الأرض لا على ظهر حيوان كبساط مشدود بين أشجار، ولا على أرز أو ذرة إلا في جوالق أو ثلج إن لم يلبده وكان يغيب فيه وجهه ولا يجد حجمه، أو حشيش إلا إن وجد حجمه، ومن هنا يعلم الجواز على الطراحة القطن، فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا بحر."

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،1/ 500،ط:سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"والأصل كما أنه يجوز السجود على الأرض يجوز على ما هو بمعنى الأرض مما تجد جبهته حجمه ‌وتستقر ‌عليه وتفسير وجدان الحجم أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك فيصح السجود على الطنفسة والحصيرة والحنطة والشعير والسرير والعجلة إن كانت على الأرض؛ لأنه يجد حجم الأرض، بخلاف ما إذا كانت على ظهر الحيوان؛ لأن قرارها حينئذ على الحيوان كالبساط المشدود بين الأشجار."

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،آداب الصلاة،1/ 337،ط:دار الكتاب الإسلامي)

ففط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں