بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو فروخت کرکے اس کی رقم سے مسجد کے لیے دوسری جگہ خریدنا


سوال

ایک زمین مسجد  بنانے کی نیت سے زید نے وقف کی، اس وقف شدہ زمین  کی حدود ِاربعہ بھی واضح ہیں، موصوف نے اس زمین کے کاغذات میں بھی ذکر کیا کہ یہ زمین برائے مسجد ہے ،مذکورہ زمین کےآس پاس بہت کم فاصلے پر مساجد موجود ہیں، جس کی وجہ سے اہل محلہ کے کچھ افراد یہاں مسجد کی تعمیر کے خلاف ہیں، زید کا انتقال ہوچکا ہے، ان کے بیٹے وہاں پر مسجد بنانے یا نہ بنانے پر شرعی جواب کے منتظر ہیں ،کہ کیا اس جگہ کو بیچ کر اس کی رقم کسی بھی مسجد کی تعمیر میں لگا سکتے ہیں یا اس زمین کے بدلے دوسری جگہ خرید کر وقف کردیں یا اسی جگہ پر ہرحال میں مسجد بنانا ضروری ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی زمین حد بندی کر کے مسجد کے لیے وقف کردی جائے تو وقف کرتے ہی وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد  نہ اس کو فروخت کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت کسی اوروقف شدہ زمین کے مصرف میں استعمال کی جاسکتا ہے،صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ زمین کی حدود اربعہ واضح کر کے اس کو مسجد کے لیے وقف کردیا گیا تو اب زید کے بیٹوں کے لیے اس  زمیں کو بیچنا اور اس کی قیمت  کو کسی اور مسجد کی تعمیر میں لگانا یا اس قیمت سے کہیں اور مسجد کے لیےجگہ لینا یا  وقف کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ اس جگہ مسجد تعمیر کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني

(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه)....«وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا. ولقائل أن يقول: إذا قال جعلته مسجدا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لا يتردد فيه نهر.

قلت يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم تأمل وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء."

(کتاب الوقف ،ج:4، ص: 356، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في فتاوى الحجة لو صار أحد المسجدين قديما وتداعى إلى الخراب فأراد أهل السكة بيع القديم وصرفه في المسجد الجديد فإنه لا يجوز، أما على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - فلأن المسجد وإن خرب واستغنى عنه أهله لا يعود إلى ملك الباني، وأما على قول محمد - رحمه الله تعالى -: وإن عاد بعد الاستغناء ولكن إلى ملك الباني وورثته، فلا يكون لأهل المسجد على كلا القولين ولاية البيع والفتوى على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا يعود إلى ملك مالك أبدا، كذا في المضمرات."

(کتاب الوقف، الباب الحادی عشر،الفصل الاول ،ج:2، ص :458،ط:رشیدیۃ)

البحر الرائق میں ہے:

(ومن بنى مسجدا لم يزل ملكه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه وإذا صلى فيه واحد زال ملكه) أما الإفراز فإنه لا يخلص لله تعالى إلا به وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد فيشترط تسليم نوعه وذلك في المسجد بالصلاة فيه أو لأنه لما تعذر القبض يقام تحقق المقصود مقامه ثم يكتفى بصلاة الواحد لأن فعل الجنس يتعذر فيشترط أدناه وعن محمد تشترط الصلاة بالجماعة لأن المسجد مبني لذلك في الغالب وصححها الزيلعي تبعا لما في الخانية لأن قبض كل شيء وتسليمه يكون بحسب ما يليق به وذلك في المسجد بأداء الصلاة بالجماعة أما الواحد يصلي في كل مكان.

وقال أبو يوسف يزول ملكه بقوله جعلته مسجدا لأن التسليم عنده ليس بشرط لأنه إسقاط لملك العبد فيصير خالصا لله تعالى بسقوط حق العبد وصار كالإعتاق.

(کتاب الوقف،فصل اختص المسجد باحکام تخالف مطلق الوقف،ج:5،ص: 268،ط:دار الکتاب الاسلامی)

وفیہ ایضا:

ولم يذكر المصنف حكم المسجد بعد خرابه وقد اختلف فيه الشيخان فقال محمد إذا خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر أو لخراب القرية أو لم يخرب لكن خربت القرية بنقل أهلها واستغنوا عنه فإنه يعود إلى ملك الواقف أو ورثته.

وقال أبو يوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه

 (کتاب الوقف،فصل جعل مسجدا تحتہ سرداب،ج:5،ص: 271، ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں