بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد یا مدرسہ کےچندہ میں حلال رقم کےساتھ غلطی سے سود کی کچھ رقم دینےکاحکم


سوال

ہم نے کسی مسجد یا مدرسے میں کام کے لیے چندہ دیا اورغلطی سے اس میں کچھ سود کا پیسہ چلا گیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 صورت مسئولہ میں   سائل نے جس مسجد یا مدرسہ میں غلطی سے حلال رقم کے ساتھ کچھ سود کی رقم  بھی دے دی ہے،تو جتنی سودی رقم سائل نے جمع کروائی ہے اُتنی رقم   کاسائل پر بغیر ثواب کی نیت سے غرباء مساکین وغیرہ پرصدقہ کرنا واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو ‌خلط ‌السلطان المال المغصوب بماله ملكه فتجب الزكاة فيه ويورث عنه) ؛ لأن الخلط استهلاك إذا لم يمكن تمييز عند أبي حنيفة، وقوله أرفق إذ قلما يخلو مال عن غصب."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم،2/ 290، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"وإنما يجب رد ضمانه لو استهلكه."

(كتاب البيوع، باب الربا، مطلب في الإبراء عن الربا، ج:5، ص:169، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) ...........(بجص وماء ذهب) لو (بماله) الحلال.

(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره ‌تلويث ‌بيته ‌بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها، فروع أفضل المساجد،1/ 658، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"لأن ‌سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظروالإباحة ،فصل في البيع،6/ 385، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں