بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد ومدرسہ میں اپنے مہمان ٹھہرانا اور مسجد و مدرسہ کی بجلی اور پانی ذاتی استعمال میں خرچ کرنا


سوال

مسجد کی استعمال ہونے والی چیزیں نمازی حضرات کے لیے خاص ہیں، اسی طرح مدرسہ کی استعمال ہونے والی چیزیں طالب علموں کے لیے ہی خاص ہیں یا پھر دونوں صورتوں میں عوام الناس کے ذاتی استعمال کے لیے بھی ہیں؟ جیسے مثال کےطورپرہمارے ہاں  جومہمان آتے ہیں انہیں گھر پر جگہ نہ ہونے کے سبب مسجد کے احاطے یا پھر مدرسہ میں ٹھہرایا جاتا ہے اب لازماً مدرسہ یامسجد کی بجلی بھی استعمال ہوتی ہے تو کیا دونوں صورتوں میں کوئی حرج ہے؟ اسی طرح کبھی کبھار پانی کی قلت کی وجہ سے ہم مسجد یا مدرسہ سے پانی لاتے ہیں،اسی طرح جب گھر میں بجلی نہ ہوتو مسجد میں اپنا موبائل یا پھر لائٹ والی ٹارچ کو چارج پر لگاتے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ اگر درست ہے تو پھرتومسئلہ حل ہے ،اگر درست نہیں، تو اتنا عرصہ جو بجلی اور پانی استعمال کرچکے ہیں اس کا کیاحکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گھرتنگ ہے جس کی وجہ سے مہمانوں کےلیے جگہ نہیں ہے توایسی صورت میں مہمانوں کومسجد میں ٹھہراناجائز ہے ،اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ  نفلی اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں داخل ہوکر کم سےکم دو رکعت نفل نماز پڑھ لیں، پھر رات کو سوجائیں تو بجلی اورپانی بھی استعمال کرسکتے ہیں ،نیز اگرپانی سے مسجد کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے،اور پانی بچ جاتاہے تو ضرورت مندوں کے لیےضرورت سے زائد پانی لےجانے کی گنجائش ہے،باقی  بجلی کے بل  کی ادائیگی میں معاونت ضروری ہوگی ،البتہ  موبائل وغیرہ کومسجد میں چارج پرلگانادرست  نہیں ہے،اگر لگایا ہے تو اس کے بل کااندازہ کرکے مسجد فنڈ میں اُتنی رقم جمع کردیں،اور اگر مسجد میں اعتکاف کی نیت  کے بغیرٹھہراہے تو بجلی کابل اندازہ کرکے مسجد فنڈ میں جمع کردیں۔

اگر مہمان مدرسے کی کسی مصلحت ومناسبت سےآئے ہوئے ہوں،تواُن کومدرسہ میں ٹھہراناجائزہے،اوراگر مدرسہ کی مناسبت ومصلحت سے نہ آئے ہوں ،بلکہ ذاتی مہمان ہوں تواُن کومدرسہ میں ٹھہراناجائز نہیں،اگر ٹھہرایاہے توبجلی وپانی  وغیرہ کے بل کااندازہ کرکے مدرسہ کے فنڈمیں اُتنی رقم جمع کرادیں،نیزمدرسہ کاپانی اوربجلی مدرسہ میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے وقف ہیں، لہٰذاکسی غیر متعلقہ شخص کامدرسہ سے پانی  لے جانایامدرسہ کی بجلی سے موبائل اورلائٹ وغیرہ چارج کرناجائز نہیں۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے :

"ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه."

(کتاب الوقف، الباب  الحادی عشر فی المسجد، 459/2، ط: رشیدية)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي الإسعاف وليس لمتولي المسجد أن يحمل سراج المسجد إلى بيته."

(كتاب الوقف، فصل في احكام المساجد، 5/270، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس للغريب ولصاحب الدار أن ينام في المسجد في الصحيح من المذهب، والأحسن أن يتورع فلا ينام، كذا في خزانة الفتاوى."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، 321/5، ط: رشیدية)

فتاوٰ ی محمودیہ میں ہے :

’’مسجد کاپنکھا اور مسجد کی روشنی اصالۃً نماز کے لیے ہے ،جب تک نمازی عامۃً نماز پڑھتے ہیں اس وقت تک استعمال کریں۔۔۔۔الخ۔‘‘

(بقیۃ کتاب الوقف، باب آداب المسجد،238/15، ط: ادارہ الفاروق)

وفیہ  ایضًا:

’’مسجد نماز کی جگہ ہے،سونے اور آرام کی جگہ نہیں ہے،جومسافرپردیسی ہو،یاکوئی معتکف ہو،اُس کےلیے گنجائش ہے ،جماعتیں عمومًاپردیسی ہوتی ہیں، یاپھر مسجد میں رات کورہ کر تسبیح ونوافل میں بیشتر مشغول رہتی ہیں،کچھ دیر آرام بھی کرلیتی ہیں،اس طرح  اگراُن کے ساتھ مقامی آدمی بھی شب گزاری کریں تو نیتِ  اعتکاف کرلیاکریں۔‘‘

(بقیۃ کتاب الوقف، باب آداب المسجد،234/15، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به."

(کتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا، 4/ 366، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"أنهم صرحوا بأن مراعاة ‌غرض ‌الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، 4/ 445، ط: سعید)

فتاوٰ ی تاتارخانیہ میں ہے:

"وليس للقيم أن يسكن فيها أحدا بغير أجر."

(كتاب الوقف، الفصل السابع في تصرف القيم ،749/5، ط: ادارۃ القرآن)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

’’مدرسہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے وقف ہے ،غیرمتعلق لوگوں کاوہاں قیام وطعام غرضِ واقف کے خلاف ہے ،اس لیے اجازت نہیں ،اس کاانتظام دوسری جگہ کیاجائے،ہاں !اگرمدرسہ کے مصالح کےلیے ہوتواجازت ہے۔‘‘

(بقیۃ  کتاب الوقف، باب مایتعلق بالمدارس، 522/15، ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں