بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد ومدرسہ کی فنڈ سے ٹیوب ویل خرید کرکے کسی کی زمین میں اجازت کے بعد لگانا اور اس کے ذریعہ مسجد ومدرسہ کے لیے پانی نکالنے کا حکم


سوال

 میں نے اپنی مملوکہ زمین جس کے پاس ہی مدرسہ اور مسجدہے،ان کے منتظمین کو ایک ٹیوب ویل بطور وقف لگانے کی اجازت دی ،میرا ان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا کہ: منتظمین مسجد ومدرسہ میری زمین میں ٹیوب ویل لگائیں گے،جب تک میری زمین سے پانی حاصل کریں گے اس وقت تک ٹیوب ویل لگارہے گا اور اس کا پانی مدرسہ اور مسجد کے لیے ہوگا اور جب ٹیوب ویل کا پانی خشک ہوجائےتو منتظمینِ مسجد ومدرسہ اپنے ٹیوب ویل کے متعلقہ سامان (سمر سیبل ،موٹر وغیرہ) کے مالک ہوں گے، جب کہ میری زمین مجھے ملے گی، اب منتظمین یہ پانی فروخت کررہے ہیں اور پانی سے حاصل شدہ آمدنی مسجد و مدرسہ پر خرچ کررہے ہیں ،ٹیوب ویل کا جو خرچہ ہوتا ہے مدرسہ ومسجد اس کے اخراجات کو برداشت کرنے سے قاصر ہے،تو وہ یہ پانی بیچ کر مسجد ومدرسہ اور ٹیوب ویل کے اخراجات ادا کرتے ہیں، واضح رہے کہ ہمارے علاقے میں ٹیوب ویل لگانے کا خرچہ پچیس لاکھ روپے ہے(مدرسہ نے اپنے ذاتی پیسوں سے ٹیوب ویل نصب کیا) اور ماہانہ خرچہ چالیس ہزار روپےہے(بجلی کا بل ،ٹرانس فارم ،چوکیدار وغیرہ جن کا خرچہ بھی مدرسہ ادا کرتا ہے)،اگر مسجد ومدرسہ کے منتظمین پانی نہ ببیچیں تو یہ ٹیوب ویل بجائے فائدے کے خسارے کا باعث ہوگا۔

(1)  کیا انتظامیہ کا اپنے ذاتی ٹیوب ویل لگانے کے بعد مسجد ومدرسہ اس پانی کا مالک بن جاتے ہیں؟ 

(2)کیا یہ پانی بیچ کر منتظمین مدرسہ و مسجداورٹیوب ویل کے اخراجات ادا کرسکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ وقف کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وقف کرنے والا ایسی چیز کو وقف کرے جو اس ملکیت میں ہو،ایسی چیز جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اسے وقف کرنے سے وقف درست نہیں ہوتا، نیز پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہرایک کے لیے مباح بنایا ہے،جب تک   کوئی شخص پانی کو   برتن، مشکیزہ،  ٹینک، کین وغیرہ میں محفوظ  نہ کرلے اس وقت تک پانی پر اس کی  ملکیت قرار  نہیں پاتا ہے۔

(1)صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے منتظمین مدرسہ اور مسجد کے ساتھ  یہ معاہدہ کیا کہ:منتظمین مسجد ومدرسہ میری زمین میں ٹیوب ویل لگائیں گے،جب تک میری زمین سے پانی حاصل کریں گے اس وقت تک ٹیوب ویل لگارہے گا اور اس کا پانی مدرسہ اور مسجد کے لیے ہوگا اور جب ٹیوب ویل کا پانی خشک ہوجائےتو منتظمینِ مسجد ومدرسہ اپنا ٹیوب ویل کے متعلقہ سامان (سمر سیبل ،موٹر وغیرہ) کے مالک ہوں گے، جب کہ میری زمین مجھے ملے گی، تو یہ وقف نہیں تھا بلکہ منتظمین کے لیے پانی نکالنے کی اجازت تھی، اب  اگر  مدرسہ ومسجد اس کے اخراجات کو برداشت کرنے سے قاصر ہےاور انتظامیہ اپنا ذاتی ٹیوب ویل لگاکر مسجد ومدرسہ کے لیے پانی فراہم کرنا چاہتی ہے تو پانی نکال کر مسجد ومدرسہ کو دینے کے بعد مذکورہ پانی مدرسہ کی ملکیت ہوگااور یہ عمل انتظامیہ کی طرف سے تبرع اور بہت بڑا اجر وثواب کا باعث بنے گا۔

(2)مذکورہ پانی مسجد ومدرسہ کی ملکیت میں آنے کے بعد  مسجد ومدرسہ کے  اور ٹیوب ویل   کی ضروریات  اور اخراجات پورے  کرنے کے لیے آمدنی کا اگر  کوئی اور انتظام   نہیں ہوسکتا تو  انتظامیہ اپنی رضامندی سے  پانی  بیچ کر مسجد، مدرسہ اور ٹیوب ویل کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إن صاحب البئرلایملك الماء ... و هذامادام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتیال، کمافي السواني فلاشك في ملکه له؛ لحیازته له في الکیزان، ثم صبه في البرك بعد حیازته".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملك الماء،ج:5،ص:67، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(وشرطه شرط سائر التبرعات) كحرية وتكليف (وأن يكون) قربة في ذاته معلوما (منجزا) لا معلقا (قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون  محجورا عن التصرف(قوله: منجزا) مقابله المعلق والمضاف (قوله: لا معلقا) كقوله: إذا جاء غد أو إذا جاء رأس الشهر أو إذا كلمت فلانا فأرضي هذه صدقة موقوفة أو إن شئت أو أحببت يكون الوقف: باطلا لأن الوقف لا يحتمل التعليق بالخطر."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:340، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وأما الثالث وهو أن يجعل آخره لجهة لا تنقطع فهو قولهما وقال أبو يوسف إذا سمى فيه جهة تنقطع جاز وصار بعدها للفقراء ولو لم يسمهم لهما أن موجب الوقف زوال الملك بدون التمليك وأنه يتأبد كالعتق وإذا كانت الجهة يتوهم انقطاعها لا يتوفر عليه مقتضاه ولهذا كان التوقيت مبطلا له كالتوقيت في البيع."

(کتاب الوقف، ج:5، ص:212، ط:دار الکتب الاسلامی)

وفیہ ایضا:

"وفي الخانية المتولي ‌إذا ‌اشترى ‌من ‌غلة المسجد حانوتا أو دارا أو مستغلا آخر جاز لأن هذا من مصالح المسجد فإن أراد المتولي أن يبيع ما اشترى أو باع اختلفوا فيه۔۔۔ وقال بعضهم يجوز هذا البيع وهو الصحيح."

(کتاب الوقف، ج:5، ص:224، ط:دار الکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں