بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد و مدرسہ کی تعمیرات میں زکوٰة کی رقم لگانا


سوال

ہماری مسجد عبداللہ بن مسعود جو سہراب گوٹھ میں واقع ہے ، وہ زیرِ تعمیر ہے،  گنجان آبادی اور پسماندہ علاقہ ہے، کافی عرصے سے تعمیر کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی،   اب کچھ کام شروع کیا ہے ، نیچے بیسمنٹ میں مدرسہ ہے۔

مطلب یہ ہے کہ  مدرسہ کی چھت  زیر تعمیر ہے جوکہ مسجد کا فرش ہے۔

آپ سے یہ مسئلہ پوچھنا ہے کہ ایک دوست  زکوۃ کی مد میں سریا، سیمنٹ لانا چاہتا ہے، کیا زکوٰة  کی مد میں سریا و سیمنٹ شرعی طور پر  لیا جا سکتا ہے؟ کیوں کہ  دوسری کوئی صورت نہیں  بن پارہی ہے، نمازیوں کو  کافی  پریشانی ہے، شیٹرنگ  باندھی ہوئی ہے،  اور  سر یا نہیں ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں زکوة کی رقم سے سریا اور سیمنٹ خرید  کر مسجد و مدرسہ کی تعمیرات کے لیے دینا جائز نہیں، اور ایسا کرنے سے زکوٰة  بھی ادا نہیں ہوگی،  البتہ اگر مسجد و مدرسہ کی تعمیرات کے لیے صاف پیسے سے انتظام ممکن نہ ہو، تو زکوٰة  کی رقم کا کسی مستحق کو  غیر مشروط  مالک بنا دیا جائے، پھر وہ مالک بننے کے بعد وہ رقم مسجد کو عطیہ دیدے، تو اسے مسجد کی  تعمیرات میں لگانا جائز ہوگا، اس طرح کرنے سے مالدار شخص کو زکوٰة  کی ادائیگی کا ثواب ملے گا، جبکہ غریب شخص کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔

المحيط البرهاني في الفقه النعمانيمیں ہے:

" ولا يصرف في بناء مسجد وقنطرة، ولا يقضي بها دين ميت، ولا يعتق عبدا، ولا يكفن ميتا، والحيلة لمن أراد ذلك أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون لصاحب المال ثواب الصدقة، ولذلك الفقير ثواب هذه القرب."

( كتاب الزكاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه، ٢ / ٢٨٢ - ٢٨٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں