بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد تنگ پڑنے کی وجہ سے مسجد کی جگہ کو تبدیل کرنے کا حکم


سوال

ہماری پرانی مسجد ہے،  اور ابھی فی الحال وہ آبادی کے لیے تنگ پڑتی ہے، آس پاس میں کوئی ایسی جگہ بھی نہیں ہے کہ ہم مسجد کی توسیع کر سکیں،  اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے اندر آئے دن فتنہ و فساد کی وجہ سے مسجدوں کو توڑا پھوڑا جاتا ہے،  اور ہماری چیزیں بالکل سڑک کے نزدیک ہیں،  اس میں ہمیں غیروں سے ہمیشہ خطرہ رہتا ہے،  اس لیے ہم  مسجد کو فتنہ اور فساد سے بچانے کے لیے دوسری جگہ تعمیر کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو جگہ ایک بار مسجد بن جائے  تو وہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے، اس کو شہید کرنا یا دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں   ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد کو شہید کرنا جائز نہیں ، کیوں کہ   مذکورہ مسجد کا آبادی کے لیے تنگ پڑنا  کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے مسجد کو شہید کردیا جائے، بلکہ یہ اسی طرح برقرار رکھی جائے گی اور یہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی رہے گی، البتہ  جگہ تنگ پڑنے کی صورت میں متبادل انتظام کردیا جائے کہ دوسری جگہ بھی مسجد تعمیر کردی جائے اور یہ مسجد بھی رہے، اور دونوں مسجدوں میں نماز پڑھتے رہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو ‌خرب ‌ما ‌حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي.

(قوله: ولو ‌خرب ‌ما ‌حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ. بحر."

(‌‌كتاب الوقف، ج: 4، ص: 385، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فاذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن).

قوله: لا يملك أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه."

(کتاب الوقف، ج: 4، ص: 352، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء... أما امتناع التمليك فلما بينا) من قوله عليه الصلاة والسلام «تصدق بأصلها لا يباع ولا يورث ولا يوهب»."

(كتاب الوقف، ج: 6، ص: 220، ط: دار الفكر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(‌‌الباب الخامس: الوقف، ‌‌الفصل الثالث:‌‌ حكم الوقف، ج: 10، ص: 7617، ط: دار الفكر - سورية - دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ‌وجاز ‌شرط ‌الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: ... والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز."

(‌‌كتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج: 4، ص: 384، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144612100470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں