بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد سے الگ کسی جگہ پرتراویح پڑھنے کی صورت میں عشاء کی نماز کہاں پڑھیں؟


سوال

اگر کچھ لوگ تراویح کی نماز مسجد سے الگ کسی جگہ پر پڑھتے ہوں تو عشاء کی نماز مسجد میں ادا کریں یاتراویح کی جگہ پر ادا کریں؟

جواب

مسجد کے قریب ہوتے ہوئے بلا کسی عذر  فرض نماز کی جماعت کا دوسری جگہ اہتمام کرنا مکروہ ہے  اگرچہ اس جگہ تراویح کی نماز ادا کی جاتی ہو، مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز جماعت کے  ساتھ  پڑھنے سے  مسجد  کی فضیلت اور ثواب سے محرومی ہوگی، نیز  مسجد  میں آنے کے  بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں فرض نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، اس لیے   جہاں کہیں مسجد  قریب  ہو نمازیوں کو  فرض نماز مسجد  میں باجماعت ادا کرکے پھر تراویح کے لیے اپنے مقررہ مقام پر آنا چاہیے۔ مردوں کے لیے حالتِ صحت وتندرستی  اور عام حالات میں مساجد  میں باجماعت نماز ادا کرنا حکماً واجب کے  درجہ میں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا".

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، صفة الإمامة في الصلاة، ج:1، ص:365، ط:دار الكتاب الإسلامي)

مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

عشاء کی نماز بھی تراویح کے ساتھ گھر پر ادا کرنا

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں