۱۔ مسجد شرعی کب ہوتی ہے؟
۲۔ کیا مسجد ی چھت پر پانی کی ٹنکی بنائی جاسکتی ہے؟
۱۔ واضح رہے کہ کسی جگہ کے شرعی طور پر مسجد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس جگہ کو حد بندی کر کے مسجد کے لیے وقف کیا جائے اور اوپر سے لے کر نیچے تک مسجد ہی ہو، اس میں کوئی اور چیز نہ ہو۔
۲۔ جو جگہ ایک مرتبہ مسجد کے لیے وقف کردی جائے وہ زمین سے لے کر آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، اور اس جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا، لہٰذا مسجد کی چھت پر ٹنکی بنانا درست نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
وفي حاشيته: (قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اهـ. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اهـ ويصح أن يراد بالفعل الإفراز."
(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 355 - 357، ط: دار الفكر بيروت)
وفيه أيضاً:
"قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله}."
(كتاب الوقف، ص: 358، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406100267
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن