بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد شرعی کے اندر زمین کی گہرائی میں گٹر کا پائپ لائن گزارنا جائز ہے؟


سوال

سوال مسجد کے اندر زمین کی گہرائی میں گٹر کا پائپ لائن گزارنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد کی شرعی حد جس قدر ہے وہ مسجد ہے، اس کے نیچے زمین میں تحت الثریٰ تک اور اوپر آسمان تک مسجد ہی ہوتی ہے۔ ا س کا احترام ضروری ہے، جس طرح مسجد بن جانے کے بعد مسجد کے اندر بیت الخلاء بنانا ناجائز ہے اسی طرح مسجد کے اندر زمین کی گہرائی میں گٹر کا پائپ لائن گزارجائز  نہیں ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله و علوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح. فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق. اهـ"

( کتاب الوقف، فصل في أحکام المسجد، ٢٧١/٥، ط: دارالکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: ‌وحاصله ‌أن ‌شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]- بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية. اهـ".

‌‌[فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد،٣٥٨/٤،ط : دار الفكر]

وفیہ ایضا :

"(و) كره تحريمًا (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه)."

(قوله:  إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته ‌بيتا ‌للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحا."

"الظاهر عدم الجوازوما يأتي متنا لايفيد الجواز لأن بيت الخلاء ليس من مصالحه علي ان الظاهر عدم صحة جعله مسجدا بجعل بيت الخلاء تحتة كما يأتي أنه لو جعل السقاية اسفله لا يكون مسجدا فكذا بيت الخلاء لأنهما ليسا من المصالح تأمل."

(كتاب الصلوة،٦٥٦/١، ط:سعيد)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مسجد کا پرانا ملبہ اینٹ وغیرہ قابلِ احترام ہے،مناسب ہے کہ مسجد  ہی میں کسی مناسب جگہ استعمال کیا جائے...ناپاک جگہ اور جہاں بے ادبی ہووہاں استعمال نہ کیا جائے،اگر بیچنے کی ضرورت ہو توکسی مسلمان کو بیچا جائے اور اسے ہدایت کردی جائے کہ یہ مسجد کا ملبہ ہے،اسے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جہاں بے ادبی نہ ہو،غیر مسلم کونہ بیچا جائے،اس کو بیچنے میں بے ادبی کا قوی اندیشہ ہے۔"

(مسجد،١٥٢/٩،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں