بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد سے باہر دوسری جماعت کرانا


سوال

ہماری مسجد علاقے کی جامع مسجد ہے۔ تقریبا ہر نماز میں نمازیوں کی تعداد ہزار سے پندرہ سو تک ہوتی ہے، تو کچھ لوگ اکثر جماعت سےرہ جاتے ہیں، جماعت کی نماز سے رہ جانے والے چند افراد مل کر مسجد کی حدود سے باہر دوسری بلڈنگ دارالقرآن کی (یعنی مدرسہ کی عمارت) میں اپنی جماعت کروا لیتے ہیں۔ کیا  یہ جماعت کروانا درست ہے؟ اسی ہی بلڈنگ میں جنازہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے۔

بروز اتوار ظہر کی نماز کے بعد چند لوگ جماعت کروا رہے تھے، جماعت ہونے کے بعد جب امام صاحب نے انہیں دیکھا تو انہوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ،تو کیا ان لوگوں کی جماعت کے ساتھ نماز شمار ہوگی یا ان کو نماز دوبارہ دہرانی پڑے گی؟

جواب

واضح رہے کہ ایسی  مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے، البتہ  اگر کسی عذر کی بناء پر مسجد کی جماعت رہ گئی ہو تو اکیلے نماز پڑھنے کے بجائے جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے محلہ کی مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر دوسری جماعت کرانا جائز ہے۔جبکہ بلا عذر ایسا کرنا یا اس کی عادت بنانا ٹھیک نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں  اگر کوئی شخص  کبھی مسجد کی جماعت کی نماز سے رہ جائے تو مسجد کی شرعی حدود سے باہر جماعت قائم کرسکتا  ہے۔ اور  اس میں جماعت کا ثواب بھی مل جائے گا مگر مسجد کے ثواب سے محرومی رہے گی۔البتہ اس کو  مستقل عادت بنا لینا درست نہیں، اس طرح لوگ مسجد کی جماعت میں شامل ہونے میں سستی کرنے لگیں گے اور اس کی فکر نہیں کریں گے۔ اور یوں یہ مسجد کی جماعت میں تقلیل (کمی) کا باعث ہوگا۔

باقی اگر امام مسجد نے دار القرآن میں دوسری جماعت قائم کرنے والوں پر اس وجہ سے ناراضی کا اظہار کیا ہوگاکہ لوگوں نے(عموما  یا بعض مخصوص نمازوں میں) اس کی  عادت بنا لی ہو، تو ان کی ناراضی کسی حد تک بجا ہوگی، البتہ اس سے ان لوگوں کو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

«ولو فاتته ندب طلبها في مسجد آخر»

(قوله ولو فاتته ندب طلبها) فلا يجب عليه الطلب في المساجد بلا خلاف بين أصحابنا، بل إن أتى مسجدا للجماعة آخر فحسن، وإن صلى في مسجد حيه منفردا فحسن. وذكر القدوري: يجمع بأهله ويصلي بهم، يعني وينال ثواب الجماعة كذا في الفتح.

واعترض الشرنبلالي بأن هذا ينافي وجوب الجماعة. وأجاب ح بأن الوجوب عند عدم الحرج، وفي تتبعها في الأماكن القاصية حرج لا يخفى مع ما في مجاوزة مسجد حيه من مخالفة قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد» . اهـ. وفيه أن ظاهر إطلاقه الندب ولو إلى مكان قريب، وقوله مع ما في مجاوزة إلخ.قد يقال: محله فيما إذا كان فيه جماعة؛ ألا ترى أن مسجد الحي إذا لم تقم فيه الجماعة وتقام في غيره لا يرتاب أحد أن مسجد الجماعة أفضل. على أنهم اختلفوا في الأفضل هل جماعة مسجد حيه أو جماعة المسجد. الجامع؟ كما في البحر ط.

قلت: لكن في الخانية وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه ويصلي وإن كان واحدا لأن لمسجد منزله حقا عليه، فيؤدي حقه مؤذن مسجد لا يحضر مسجده أحد. قالوا: هو يؤذن ويقيم ويصلي وحده، وذاك أحب من أن يصلي في مسجد آخر. اهـ. ثم ذكر ما مر عن الفتح، ولعل ما مر فيما إذا صلى فيه الناس فيخير، بخلاف ما إذا لم يصلي فيه أحد لأن الحق تعين عليه. وعلى كل فقول ط قد يقال إلخ غير مسلم، والله أعلم

(1/ 555)

وفيه أيضا:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ". 

 (1/ 552، کتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب  في تکرار الجماعة في المسجد، ط: سعید)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے، اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے؛ اس لیے جماعتِ ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں، نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے، یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔

(کفایت المفتی ،جلد سوم ، ص:140،کتاب الصلوۃ ،دارالاشاعت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں