بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد سے متصل مکتب میں طلبہ کی جماعت کروانے کا حکم


سوال

میں مکتب پڑھا تا ہواور مکتب سے بالکل متصل مسجد ہےاور ہم چاہتے ہیں کہ اس مکتب میں   سکھانے کی غرض سے طلبہ کرام کی جماعت کے ساتھ نماز شروع کرادی جائے، کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟

جواب

فرض نماز مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ  پڑھنی چاہیے ؛ اس لیے  کہ مسجد کا ثواب مسجد  ہی میں باجماعت نماز پڑھنے سے حاصل ہو گا، مکتب میں باجماعت نماز پڑھنے سے  مسجد کی نماز  کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔

البتہ اگر بچوں کو نماز سکھانے کی غرض سے یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مدرسہ ہی میں جماعت کرائی  جاتی ہو تو اس میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اساتذہ اور بالغ طلبہ تو مسجد ہی میں نماز  باجماعت پڑھنے کا اہتمام کریں اور نابالغ طلبہ   کی جماعت مدرسہ  میں کرادی جائے جس کا طریقہ یہ ہو کہ چند اساتذہ یا بالغ طلبہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد مدرسہ آکر اپنی نگرانی میں نابالغ طلبہ کی جماعت مدرسے میں کروادیں، لیکن مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب مسجد کے علاوہ دیگر جگہوں میں حاصل نہیں ہوگا، اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اگر   مسجد بڑی ہو تو نابالغ سمجھ دار بچوں کو بھی جماعت کے وقت مسجد کے ایک کونے میں کھڑا کردیں، ایسا کرنے سے بچوں کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کی عادت بھی بن جائے گی اور ان کو الگ سے نماز پڑھنے پڑھانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا محمد بن جعفر قال: حدثنا شعبة، عن إبراهيم الهجري، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما، فليحافظ على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن، فإنهن من سنن الهدى، وإن الله شرع لنبيكم صلى الله عليه وسلم سنن الهدى، ولعمري، لو أن كلكم صلى في بيته، لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد رأيت الرجل يهادى بين الرجلين حتى يدخل في الصف، وما من رجل يتطهر، فيحسن الطهور، فيعمد إلى المسجد، فيصلي فيه، فما يخطو خطوة، إلا رفع الله له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة."

(سنن ابن ماجه،كتاب المساجد والجماعات،باب المشي إلى الصلاة،1/ 255،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب...(وأقلها اثنان) واحد مع الإمام ولو مميزا أو ملكاأو جنيا في مسجد أو غيره.

(قوله في مسجد أو غيره) قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ".

(کتاب الصلوة، باب الامامة، مطلب فی احکام المسجد،552/1، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں