بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد و مدرسہ کےلیے وقف شدہ زمین میں قبرستان بنانے کا حکم


سوال

میری والدہ محترمہ نے دس، بارہ سال پہلے ایک کنال زمین مسجد و مدرسہ بنات کے نام پر وقف کردی تھی، لیکن وقف کرتے وقت میں خود موجود نہیں تھا، میں بیرون ملک روزگار کےسلسلے میں گیاہوا تھا، اسی دوران  والدہ مرحومہ نے جگہ مسجد و مدرسہ کےلیے وقف کردی تھی، جس کا مجھ سے مشورہ نہیں ہوا؛ لہذا اس وقت ہماری مجبوری یہ ہے کہ وقف شدہ جگہ کے علاوہ ہمارے پاس قبرستان کےلیے جگہ موجود نہیں ہے جو وقت کی اشد ضرورت ہے؛ لہذا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وقف شدہ جگہ میں سے آدھی زمین قبرستان کےلیے رہ جائے،اور آدھی زمین مسجد و مدرسے کے نام ہوجائے، اگر ایسی کوئی شرعی صورت حال بنتی ہے، تو ہمیں براہ کرم آگاہ کردیجیے۔

جواب

 واضح رہے کہ اگر کوئی زمین مسجد وغیرہ کے لیے  وقف کردی گئی، اور متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کردی گئی،  اگرچہ اس پر نماز پڑھنے کا موقع نہیں آیا، تو یہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں مرحومہ والدہ کے بیٹے (سائل ) کےلیے وقف شدہ زمین (جو سائل کی والدہ نے مسجد و مدرسہ بنات کےلیے وقف کردی تھی، اس ) میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ، یعنی مذکورہ زمین ایک مرتبہ مسجد و مدرسہ کے لیے وقف ہونے کے بعد اب سائل کےلیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مذکورہ زمین کے آدھے حصے میں قبرستان بنائے اور بقیہ آدھے حصےمیں مسجد و مدرسہ بنائے، بلکہ سائل اور مذکورہ زمین کے ذمہ داران کےلیے ضروری ہے کہ وہ وقف شدہ زمین کے پورے حصے میں مسجد و مدرسہ بنائے، (آدھے حصے میں مسجد بنادیں، اورآدھے حصے میں مدرسہ بنادیں، لیکن قبرستان بنانا کسی صورت جائز نہیں )۔

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

 (کتاب الوقف، ج:4، ص:433، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"مطلب مراعاة غرض ‌الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص:445، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".

(کتاب الوقف، الباب الثانی فیما یجوز وقفه، ج:2، ص:362، ط: رشیدیة)

وفیه أیضاً:

"ولو کان الوقف مرسلًا لم یذکر فیه شرط الاستبدال لم یکن له أن یبیعھا ویستبدل لھا و إن کانت أرض الوقف سبخة لاینتفع بھا."

(کتاب الوقف، فصل في وقف المشاع، الباب الرابع فيما يتعلق بالشرط في الوقف، ج:2، ص:401، ط: رشیدیة)

فتح القدير میں ہے:

"(قوله: وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء."

(کتاب الوقف، ج: 6، صفحه: 220، ط: دار الفکر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

" و‌‌عند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف، الفصل الثالث حکم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دار الفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں