بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو موبائل سے ترجمہ کرانا


سوال

مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو موبائل سے ترجمہ کرانا کیسا ہے ؟

جواب

موبائل میں دیکھ کر  قرآنِ مجید یا اس کا ترجمہ پڑھنایا لوگوں کو پڑھانا جائز ہے، اور چوں کہ بلاوضو قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے،  اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد  میں موبائل پر قرآنِ مجید کھول کرترجمہ یا تفسیر کا درس دیتا ہے، اور اس دوران موبائل پر جان دار کی کوئی تصویر یا تصویر پر مشتمل اشتہارات وغیرہ بالکل نہیں کھلتے تو اس کی اجازت ہوگی، البتہ اگر مصحف موجود ہو یا  پڑھنے والوں کو اعتراض ہو تو بہتر یہ ہے کہ  موبائل کے  بجائے مصحف ہی سے پڑھایا جائے۔ اور اگر موبائل میں آن لائن ایپلی کیشن وغیرہ کھولنے کے نتیجے میں جان دار کی تصاویر بھی کھلتی ہوں تو  چوں کہ جان دار کی تصویر دیکھنا بھی ناجائز ہے، لہٰذا مسجد کے اندر جان دار کی تصاویر کھولنا اور دیکھنا گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کے تقدس کے بھی خلاف ہے۔ 

نیز اس بات کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ  کسی بھی غیر عالم  کو مسجد کے منبر پر مدرسِ  قرآن کے منصب پر فائز کرنا شرعی نقطہٴ  نگاہ سے درست نہیں ہے؛ لہذا درسِ  قرآن کسی  عالم ہی کو دینا  چاہیے۔

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب".

 (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173):

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود. (قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال: والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلاحائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحر. (قوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں